وادی داریل اور وادی تانگیر کو قدرت کا حسین ترین تحفہ کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا۔چونکہ اس زمین کو قدرت نے بے تحاشا وسایل سے مالا مال کیا ہے۔ایک مرکزی وادی کے ساتھ کیٓ زیلی وادیوں کا سلسلہ داریل و تانگیر کے حسن میں مزیدچار چاند کے باعث بنتے ہیں۔پہاڑ قدرتی قیمتی جنگلات سے ڈھکے ہوے ہیں۔جس سے یہاں کے باسیوں کو سالانہ اربوں روپے کی امدنی ہوتی ہے۔داریل اور تانگیر کے صرف جلغوزہ جو سالانہ انکم دیتا ہے وہ بھی یہاں کے خدکفالت کے لیے کافی ہے۔ایک اعداد شمار کے مطابق سال ۲۰۱۵ میں صرف داریل کی ایک وادی کو جلغوزوں کی مد میں ایک ارب کے لگ بھگ رقم حاصل ہوی۔ جبکہ عمارتی لکڑی سے حاصل ہونے والی امدنی کا کوی اعداد وشمار نہیں ہے ۔الغرض قدرت نے یہاں کے کوی شے بیکار پیدا نہیں کی پہاڑوں کے اپر جنگلات ہیں اور تہہ میں قیمتی معدنیات کے زخایر ہیں۔زمین کی زرخیزی کی بات ہی کچھ اور ہے۔مکی گندم آلو پیاز کے ساتھ یہ زمین سونہ بھی اگلتی ہے۔ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں کے درمیان چھے سے سات فٹ کھدای کرنے پر سونے کے زیورات سلیمانی دانے اور انواع اقسام کے نوادرات بر امد ہوتے ہیں ۔اسلیے یہاں کی مجموعی آبادی کے ۹۰ فیصد عوام خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔جتنے خوبیاں اس زمین کے اندر ہیں اس سے کیٓ گناہ زیادہ خوبیاں الللہ نے یہاں کے عوام کو عطآ کیا ہے۔خوش اخلاق مہمان نوازی وفاداری قول و فعل کے پاسداری اور حب الوطنی یہاں کے باسیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے۔ملک وملت کے لیے ہمیشہ دستیاب رہنے والی یہ واحد قوم ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہر دور کے حکومتوں نے یہاں کے عوام کی مثبت خوبیوں کو سامنے رکھ کر مزید نکھار پیدا کرنے کے بجاے جاہل وحشی کا تعنہ دیکر انتہا پسند ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اور لاکھوں کے ابادی کو تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔علم کے زریعے شعور دینے کے بجاے بندوق کے نوک پر طاقت کے زریعے اپنے بالادستی کو قایم کرنے کی غلطی کی۔جس سے بہتری کے بجاے بدتری پیدا ہوی۔گلگت بلتستان کے سیاسی اکھاڑے میں موجود ہر سیاستدان نے داریل اور تانگیر کی طرقی کی بات کرنے کے بجاے فوج کشی کی خواہش ظاہر کی۔انتظامی سطح پر بھی داریل و تانگیر کے ساتھ انصاف والا معاملہ نہیں ہوا ہر آنے والا انتظامی افیسر نے خدمت کے بجاے حکومت کرنے کو ترجیح دی جس سے ماحول میں مزید گھٹن پیدا ہوا۔ایک عرثے سے ہم دیکھ رہے ہیں داریل و تانگیر کے لاکھوں عوام سخت انتظامی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ایک چھوٹا سا دفتری کام کیلے مسلسل چھے گھنٹوں کا سفر کر کے چلاس شہر آجاتے ہیں چونکہ تانگیر کی آخری آبادی سے چلاس شہر کا سفر چھے گھنٹوں کا ہے۔اور ایسی طرح داریل کے آخری آبادی سے بھی ضلعی ہیڈ کوارٹر کا سفر اتنا ہی ہے۔اور یہ اتنے وسیع و عریض علاقے ہیں کہ چلاس سے ان علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔چونکہ تانگیر کوہستان کھندیاں کے حدود سے شروع ہوتا ہے اور ضلع غذر بتھریت تک پھیلا ہوا علاقہ ہے۔جبکہ داریل شتیال دریاے سندہ کے بنہ سے شروع ہوکر غذر کے بالای علاقوں تک پونچتا ہے۔اب چلاس شہر سے گلگت شہر کا سفر محض تین گھٹوں کا ہے جبکہ داریل اور تانگیر سے چلاس شہر کا سفر چھے گھنٹوں کا ہے چلاس شہر سے غذر یاسین کا سفر اور داریل تانگیر کے آخری آؓ �آؓ بادی کا سفر دیکھا جاے تو مساوی ہے اب چلاس کو یاسین کے ساتھ ملا کر ضلع کا نام دینا یاجٹیال کو استور رٹو کے ساتھ ملا کر ضلعی انتظامیہ کو ایک کر دینے سے کوی فایدہ حا صل ہو سکتا ہے؟
یہ کہا ں کا انصاف ہوا کہ محض جان خلاصٰٰٰی کے لیے ایک پورا تہذیب کو اٹھا کر دوسرے سے ملا کر خلت ملت کیا جاے۔چلاس اور داریل تانگیر کے درمیان ضلع کوہستان ہے داریل اور تانگیر کا ہر شہری ضلع کوہستان سے ہوکر ضلع دیامر میں داخل ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ درمیان میں بارڈر ہے اپنے ضلع کے ایک حصہ سے دوسرے صوبے کے ضلع کا بارڈر کراس کر کہ پھیر آپنے ضلع کا دوسرے حصہ میں داخل ہونا پڑتا ہے۔اور دونوں اضلاع کے پالیسیوں کا اثر کوہستان اور دیامر پر پڑے یا نہ پڑے مگر داریل اور تانگیر کے عوام پر ضرور پڑتا ہے۔جب بھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مسلہ کوہستان یا دیامر میں کہے پر پیدا ہو داریل اور تانگیر کے عوام بھری طرح متاثر ہوتے ہیں۔چونکہ بدقسمتی سے دونوں اضلاع کے درمیان داریل اور تانگیر واقع ہیں۔اور یہ ایک غیر فطری ملاپ ہے داریل اور تانگیر کو چلاس دیامر سے ملا کر ایک بڑی طبقہ کواحساس محرومی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ چونکہ چلاس میں برا جمان انتظامیہ داریل اور تانگیر تک اپنے گرفت برقرار نہیں رکھ سکتی ۔اور نا ہی ہنگامی حالات میں بروقت پونچ پاتے ہیں ۔جس سے داریل اور تانگیر کے نوجوان نسل کے اندر سخت مایوسی پیدا ہوی ہے۔چونکہ گلگت بلتستان کے نقشے میں اب وہ علاقے بھی اضلاع کے درجہ پاچکے ہیں جو داریل اور تانگیر سے آبادی جغرافیہ اور وسایل کے لحاظ سے بہت چھوٹے ہیں ۔وقت کا تقاضا یہ ہکہ داریل اور تانگیر کے اس حقیقت کو تسلیم کر کے فورٓٓ داریل اور تانگیر کو دو الگ الگ اضلاع بناکر عوام کے اندر پیدا ہونے والی مہلک مایوسی کا سدباب کیا جاے ۔ورنایہ ظلم کا روییہ مزید مجرم پیدا کریگا اور ہم لاو لشکر کا مطالبہ کرتے رہینگے مگر اسکا بھی کوی فایدہ نہیں ہوگا اگر معاشرے کو سدہارنا ہے تو الزامات سے آگے نکل کر لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینا ہوگا۔اس طرح حقدار کو اس کا جایز حق نہ ملا سیاسی بالادستی کے بنیاد پر نوازشات کی بارش رہی تو معاشرہ بگاڑ کی طرف جاے گا اور اسکا الزام دوسروں پر لگانا جایز نہیں ہوگا۔ داریل اور تانگیر کے ڈہای لاکھ عوام موجودہ حکومت سے انصاف کی امید رکھتے ہیں۔ اور ضلع دیامر کا ہر شہری حکومت وقت سے یہ سوال کر رہا ہے کہ داریل اور تانگیر کے عوام کو انصاف کب ملے گا؟
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ