میرے لیے یہ قطعاً حیرت کی بات نہیں کہ ضلع دیامر بالعموم اور داریل بالخصوص میڈیائی طبقے اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کے نشانے پر رہتا ہے۔گزشتہ دس سال کا طائرانہ جائزہ اس بات پر واضح ثبوت ہے کہ جب بھی ضلع دیامر میں خواتین کے حوالے سے علاقائی کلچر و ثفاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اجتماعی یا انفرادی بات کی جاتی ہے تو یہ طبقہ ان کے غم میں ہلکان ہوجاتا ہے۔پھر خواتین کے نام پراین جی اوز بنا کر لاکھوں کروڈوں ہڑپ کرنے والے بھی پوسٹر چسپاں کرتے اور احتجاجی شمعیں جلانے اور پھر اخباری بیانات جاری کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں 144گلگت بلتستان ایل اے 17دیامر حلقہ نمبر 3 داریل میں علماء کرام اور عمائدین داریل نے علاقے میں ووٹ کے عمل کو پرآمن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک طویل مشاورتی اجلاس کیا۔چونکہ جون 2015ء گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن ہونے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں اسی حلقے میں سخت حالات خراب ہوئے اور تین قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ۔ الیکشن کچھ دنوں کے لیے ملتوی ہوئے اور اسی حلقے میں ایک ماہ بعد دوبارہ الیکشن ہوئے۔گزشتہ الیکشن میں افراتفری اورکشیدگیِ حالت کی وجہ سے خواتین کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اب کی بار داریل کے علماء کرام اور عمائدین اور الیکشن میں حصہ لینے والیے امیداروں نے ایک مشاورتی سلسلہ شروع کیا۔اس جرگے نے اس بات پر اطمینان کیا کہ اب کی بار دنگا فساد کی بجائے پرامن طریقے سے الیکشن کا قیام لازمی بنایا جائے گا۔ جرگے کے کچھ ممبران نے علاقائی کلچر اور رسم و رواج اور دینی جذبے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ رائے بھی رکھی کہ خواتین کو ووٹ کے عمل سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اس رائے کی تمام ممبران، علماء کرام اور امیدواروں نے فوری طور پر توثیق کی۔ اس جرگے میں چالیس جید علماء کرام، کئی عمائدین اورانتخابی امیدواروں مسلم لیگ ن کے حاجی حیدر خان، پیپلزپارٹی کے دافر خان، جے یو آئی ایف کے حاجی رحمت خالق، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر زمان اور آزاد امیدوار شمس الرحمان نے شرکت کی اور متفقہ طور پر اس رائے کا احترام کیا گیا کہ خواتین اگر ووٹ کے عمل میں شرکت نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ تاکہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوجائے اورخدانخواستہ حالات خراب ہونے کی صورت خواتین محفوظ بھی رہ سکیں۔لیکن افسو س اس وقت ہواجب میڈیا اس پو خوبصورت مشاورتی عمل کو کوریج دینے کی بجائے صرف خواتین کی ووٹ والی خبر کو لے اُڑا، اور ایسا پروپیگنڈہ شروع کیا کہ الامان والحفیظ۔پورے جی بی کی میڈیا اور پاکستان سمیت بی بی سی جیسے عالمی ادارے نے اس معمولی خبر کو وہ کوریج دی کہ انسان انگشت بدنداں رہ گیا۔ورنہ داریل پر سخت مشکلات آئیں ، زلزلے آئے اور سیلاب سے لاکھوں کروڈوں کا نقصان ہوا مگر انسانی حقوق کے علمبردار اور باخبر میڈیا ان سے مکمل بے خبر ہی رہا۔
خواتین کے الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے میں نے اپنی ایک تحریر میں عرض کیا تھاکہ’’خواتینِ اسلام کے حوالے سے قرآن و حدیث میں واضح احکامات موجود ہیں۔بہت سارے معاملات میں مرد اور عورت کی ممتاز حیثیت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا عورتوں کے لیے حکم ہے ’’تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پچھلی جاہلیت کی طرح بناو سنگار کرکے مت نکلا کرو‘‘۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیاہے؛،تو آپ نے فرمایاکہ وہ قوم کبھی کام یا ب نہیں ہوسکتی جو کسی عورت کو اپنا سربراہ بنا لے ۔ان احکام کے بعد عورت کو سربراہ مملکت بننا جائز نہیں ہوتا۔تاہم اگر خواتین کے لیے مکمل پردے کے انتظام کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام ہو، ان کی تمام ایوانی کاروائیاں الگ سے کی جارہی ہوں تو ان کے لیے شاید ممبراسمبلی بننا جائز ہواور اگر یہ خواتین اپنی ممبری اور دیگر سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں احکام شرع کی پابندی نہ کرسکیں تو لامحالہ ان کو سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شرکت مناسب نہیں ہوگی بلکہ ناجائز ہوجائے گی۔‘‘
داریل کے علماء اور جرگے نے بزور قوت خواتین کو ووٹنگ سے ہرگز نہیں روکا ہے بلکہ اپنی روایات کے مطابق ایک فیصلہ کیا ہے کہ مناسب یہی ہے کہ خواتین ووٹ کاسٹ نہ کریں۔ انہوں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ خواتین کا ووٹ میں حصہ لینا ناجائز ہے یا خلاف اسلام ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر ہر ’’ایرا غیر‘‘ا اپنا من چاہا تجزیہ، تبصرہ اور اخباری بیان جاری کررہا ہے۔ حقائق حال جانے بغیرہرکوئی بولے جارہا ہے۔یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ داریل کے اس حلقے میں خواتین کے لیے الگ پولنگ کی سہولت موجود بھی ہے یا نہیں۔ مردوں کے ساتھ مخلوط سسٹم میں رہ کرووٹ دینا ہوتا ہے جو قبائلی رسم و رواج کے عین مخالف ہے۔ اور اقوام متحدہ کا عالمی منشور ہر قوم و نسل اور قبیلہ کے لوگوں کو اپنی چاہت ومرضی اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے اور فیصلے کرنے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ ایسے فیصلوں کا احترام و تحفظ بھی کرتا ہے۔میں شرطیہ کہتا ہوں کہ کوئی سروے کروائی جائے تو داریل و تانگیر کی نوے فیصد خواتین ووٹ کے عمل میں حصہ لینا ہی پسند نہیں کرتی۔کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مخلوط پولنگ میں غیرمحرم مردوں کے سامنے ایک عزت دار اور غیرت مند خاتون کا ووٹ کاسٹ کرناکتنا مشکل ہے۔کیا اس طرح کے عمل کو قبائلی روایات اجازت دیتی ہیں۔ ایسے نازک مزاج لوگوں کے لیے مخلوط پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹ کی کاسٹنگ کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ان کے قبائلی طور طریقے۔مگر ہمارے ’’ہماوشما‘‘ دانشور اپنی راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔بخدا اگر پورے حلقے میں خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ کا نظام ہو۔ جہاں ریٹرنگ آفیسر اور دیگر سپورٹنگ عملہ خواتین کا ہو تو، داریل کے علماء، عمائدین اور امیدوار کبھی بھی یہ فیصلہ نہ کرتے ۔ انہوں نے تو دفع مضرت کے لیے یہ مشکل فیصلہ کیا ہے ورنہ کوئی امیدوار نہیں چاہیے گا کہ خواتین ووٹ میں حصہ نہ لیں۔ بلکہ وہ اس کی کمپیئین کریں گے ۔ مگر زمینی حقائق اس کے مخالف ہیں۔ سب نے عافیت یہی جانا کہ انکو پولنگ کے عمل سے دور رکھا جائے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اہل دیامر بالعموم اور داریل و تانگیر والے بالخصوص اپنی قبائلی روایات پر سختی سے کاربند ہیں۔انہیں ایسے ہنگاموں میں میں اپنی عزت گنوا کر کسی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔داریل تانگیر میں جرگہ سسٹم بہت مضبوط ہے۔ وہاں کے علماء و عمائدین جو بھی فیصلے کرتے ہیں وہ علاقائی رواج و اسلامی افکار کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقہ و قوم کے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے ہیں اور لوگ بلاچوں و چراں ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں کی نفسیات کیا ہیں۔ کون سا عمل علاقے کے لیے مفید اور کونسا مضر ہے ۔ تُف ہویسے لوگوں پرجو داریل کی خواتین کے ووٹ کے خلاف اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں اور اپنے بیرونی آقاؤں کو تصویری رپورٹیں فراہم کرتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت اور خواتین کے حقو ق کے لیے یہ خدمات انجام دی ہیں۔میں مکمل وثوق سے کہتا ہوں کہ ایسے خبث باطن رکھنے والے لوگ خواتین کو ووٹنگ سے روکنے کے عمل کو اپنی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ورنہ تو انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے کام اور بھی ڈھیروں پڑے ہیں جو کرنے کے ہیں مگر انہیں وہ سب کچھ نظر ہی نہیں آتا۔کیا یہ سراسر زیادتی نہیں کہ کسی علاقے کے لوگوں کو اپنی روایات اور قبائلی کلچر کے مطابق فیصلے کرنے اور زندگی گزارنے سے روکا جائے۔
سعودی عرب میں بھی خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے پر پابندی تھی تاہم یہ پابندی سال پہلے ختم کی گئی۔ سعودیہ کی شوری کونسل کے اراکین نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کی حق دینے کی سفار ش کی تو شاہ عبداللہ نے شوریٰ کے فیصلے پر عمل کیا۔ اور خواتین ووٹ کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کی بھی اجازت دی۔وجہ صاف ظاہر تھی کہ وہاں امن و امان اور خواتین کے لیے الگ نظام کو یقینی بنایا گیاتھا۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ داریل جرگے نے خواتین کو بزور طاقت ووٹ سے روکا تو نہیں البتہ اتفاق رائے سے ایک فیصلہ کیا گیاہے۔ جس کی کوئی قانونی حیثیت تو ہے ہی نہیں البتہ اخلاق حیثیت ضرور ہے۔اگر علماء و عمائدین کے فیصلوں سے کوئی انحراف کرتا ہے تولوگ اس کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ کرسکتے ہیں ان کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتے۔ مگر اس سادھے سے فیصلے کو ہمارے دانشور اور میڈیائی طبقے اس شد و مد کے ساتھ اٹھارہے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ بس آج کل میں داریل میں ساری خواتین کو زندہ جلادیا جائے گا۔این جی اوز کے عالمی منشور میں یہ بات کلیر ہے کہ کسی بھی علاقے کے کلچر کو ملحوظ خاطر رکھ کر سماجی و بہودی فلاح کے لیے کام انجام دیے جائیں مگر کوئی سماجی فلاح کے نام پر دیامر کی خواتین سے یہ سوال کریں کہ ’’ تم کونسے صابن سے نہاتی ہو؟ ‘‘ توکیا اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے؟۔ قطعاً نہیں۔ مگر یہ فہمائش تو عقل والوں کے لیے ہے۔ جن کے عقلوں پر پردہ ہواور مسلسل ڈالر کی کشش ہو ان کو رتی برابر اثر نہیں ہونا۔
گزشتہ دنوں پی ڈی سی این میں ایک نشست میں ڈاکٹر مولاداد شفا صاحب نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ دیامر کے اساتذہ کے ورکشاپ کے بعد داریل سے تعلق رکھنے والا ایک استاد ورکشاپ کے آخر میں مجھ سے خصوصی ملنے آیا اور کہا کہ ’’ سر! میری گزارش ہے کہ اگلی دفعہ میری وائف کو بھی ورکشاپ میں مدعو کریں۔ یہاں دیگر ضلعوں کی خواتین ورکشاپ میں حصہ لیتی ہیں تو ہماری خواتین کے لیے بھی گنجائش ہونی چاہیے‘‘ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ ’’ ابھی نہیں، اس لیے کہ فی الحال آپ کا کلچر اورروایات اس بات کی اجازت نہیں دیتی ، اور جب یہاں صرف اور صرف خواتین کا ورکشاپ ہوگا تو ہم دیامر کی خواتین اساتذہ کو ضرور موقع دیں گے تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ تعلیمی تربیت پاسکیں‘‘۔ یہ ہوتی ہے عقل مندی اور علاقائی روایات کا احترام۔ ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے عملی طور پر کام کرنا ہوگا نہ کہ اخبارات میں مسلسل بیانات اور اداریے لکھے جائیں۔ اس سے ماحول مزید گھمبیر ہوجاتا ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ