ہنزہ نیوز اردو

فلم کا راستہ مت روکو

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری[/author]

 

فلم فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ دور رس اثرات کی حامل صنف ہے۔ شاعری، موسیقی، مصوری اور آرٹ کی دیگر اصناف کی پسند، پذیرائی اور ذوق تعلیم یافتہ طبقے تک محدود ہے، لیکن فلم کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کی اسکرین پر ابھرتے مناظر اور مکالمے ان پڑھ مزدور، کسان اور دنیا کے ہر معاملے سے بے خبر گھریلو خواتین تک کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ اس قدر وسعت اور اہمیت رکھنے والا یہ میڈیم ہمارے یہاں شدید زبوں حالی کی زد میں رہا ہے۔ 

برصغیر میں فلمی صنعت کی داغ بیل جن لوگوں نے ڈالی ان میں مسلمان نمایاں اور اس عمل میں پیش پیش تھے۔ اداکاری ہو، موسیقی ہو یا ہدایت کاری، شاعری اور کہانی سمیت ہندوستان میں ابھرنے والی فلم نگری کے ہر شعبے میں مسلمانوں نے اپنی صلاحیت منوائی۔ چناں چہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں فلم سے متعلق ہر شعبے کے نہایت لائق افراد کی کھیپ ملی۔ اسی وجہ سے وسائل کی کمی کے باوجود ابتدائی زمانے سے بعد کے عشروں تک ہمارے ملک میں بہت اچھی فلمیں بنائی گئیں۔ پھر رفتہ رفتہ یہ صنعت بھیڑ چال کا شکار ہوگئی۔ یکساں موضوعات، ایک سی کہانیاں اور ناقص سہولیات کے باعث ہماری فلمیں اپنا معیار کھونے لگیں، رہی سہی کسر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لگنے والی پابندیوں نے پوری کردی۔ ایک تو آمریت کا یہ خوف کہ کہیں عوام میں حقوق اور جمہوریت کا شعور بیدار نہ ہوجائے دوسرے اسلام کے نام پر دکھاوا کرنے کا چلن، لہٰذا دیگر فنون لطیفہ کی طرح فلمی صنعت بھی ضیاء حکومت کی قدغنوں کا شکار ہوکر اپنے رہے سہے امکانات بھی کھوبیٹھی۔ 

ایک طرف یہ صورت حال تھی دوسری طرف وی سی آر اور کیبل کے ذریعے گھر گھر بھارتی فلمیں دیکھی جانے لگی تھیں۔ لہذا وہی ہوا جو ہونا تھا۔ پڑوسی ملک کی فلموں کے معیار کے باعث چھوٹا سا وی سی آر ہمارے بڑے بڑے سنیما گھروں اور فلم اسٹوڈیوز کو ہڑپ کرگیا، جس کے بعد کئی دہائیوں تک ہم فلمی صنعت کے بحران کا رونا روتے رہے۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری کئی عشروں تک شدید زبوں حالی کا شکار رہنے کے بعد اب کہیں جا کے سنبھلی ہے۔ ورنہ یوں لگنے لگا تھا کہ جیسے پاکستان سے فلم کی صنعت کا فلم اسٹارز، اسٹوڈیوز اور سنیما جیسے اس شعبے کے تمام لوازمات سمیت خاتمہ ہونے کو ہے۔ ملک بھر میں لاتعداد سنیما ہال شاپنگ مالز کی صورت اختیار کرچکے تھے، کتنے ہی فلم اسٹوڈیوز کے دروازوں پر تالے پڑ چکے تھے، فلمی صنعت سے وابستہ ہنرمند اس صنعت کی بحالی سے مایوس ہوکر دوسرے پیشے اختیار کرچکے تھے، محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے بچے کھچے سنیما گھروں پر اب بھارتی یا ہالی وڈ کی فلمیں ہی چلا کریں گی، ایسے میں حالات نے کروٹ لی، تواتر کے ساتھ اچھی اور خوب صورت فلمیں سامنے آئیں، جنھیں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی، یوں ہماری فلمی صنعت کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے۔

ایسے میں عاشر عظیم کی فلم ”مالک“ پر لگائی جانے والی پابندی سے خطرہ ہے کہ بحالی کا یہ سفر کہیں رک نہ جائے۔ آخر اس فلم میں ایسا کیا ہے جس سے پابندی لگانے والے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔

یہ امر حیرت انگیز ہے کہ چیئرمین سندھ بورڈ برائے فلم سنسر فخرعالم کے مطابق فلم مالک کو دو ہدایات کے ساتھ سرٹیفیکٹ دیا گیا تھا، جو یہ تھیں کہ فلم سے وزیراعلیٰ کا لفظ اور حلف اٹھانے کا منظر نکال دیا جائے۔ ایسی غیرحقیقت پسندانہ اور بے تکی ہدایات جاری ہوتی رہیں تو پاکستان میں حقیقت اور حالات کی عکاسی کرتی فلمیں شاید ہی بن سکیں۔ 

ہماری فلمی صنعت زوال کا شکار ہوئی تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے یہاں صرف فارمولا فلمیں بننے لگی تھیں، ہیرو، ہروئین، ظالم سماج، ولین، گانے، ماردھاڑ، ہر فلم میں بس یہی کچھ تھا۔ چند گھسے پٹے موضوعات کو لے کر فلم بنادی جاتی تھی۔ اداکاری سے لے کر عکس بندی تک کسی شعبے میں نئے دور کا تقاضوں کا کوئی چلن نہیں تھا۔ پاکستانی فلموں کی اس صورت حال کا ایک بنیادی سبب اسی نوعیت کی پابندیاں تھیں، جن کا ”مالک“ کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب مختلف قسم کی قدغنیں ہوں تو آرٹ کا کوئی شعبہ بھی ترقی نہیں کرسکتا، اور جہاں تک فلم کا تعلق ہے تو بھاری سرمائے سے چلنے والا یہ شعبہ عوام کی پسند کا محتاج ہوتا ہے۔ اس میں کس کو شک ہوگا کہ لوگ اپنے حالات، زندگی اور اپنے سامنے موجود حقائق کو اسکرین پر کہانی کی صورت ڈھلتے دیکھ کر ایسی کہانیوں اور ان کے کرداروں سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ چناں چہ حقائق پر مبنی موضوعات فلم کے فروغ کے لیے بھی ضروری ہیں اور ہمارے معاشرے کے لیے بھی۔

اس فلم کا بنیادی موضوع بدعنوانی اور طاقت ور طبقے کا عام افراد پر ظلم ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ کرپشن اور استحصال ہے، اگر ان مسائل کو فلم کا موضوع بنایا گیا ہے تو کون سی قیامت آگئی؟ کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بننے والی فلم وزیراعظم ہاؤس میں دکھائی جائے اور عوام کے مسائل اجاگر کرتی فلم کو پابندی کا سامنا کرنا پڑے۔

ہم آج شدت پسندی کی جس فضا میں رہ رہے ہیں اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں فنون لطیفہ کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ آرٹ ذہنوں کی تطہیر کرتا اور شعور اجاگر کرتا ہے۔ یہ لوگوں میں برداشت پیدا کرتا ہے، لیکن ہمارے حکم رانوں اور کچھ دیگر طبقات نے آرٹ کے ہر شعبے کو کچل ڈالنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر فلم جیسے عوام کے قریب ترین فن لطیفہ سے بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ اس بربادی کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے چینی، انتہاپسندی اور جہالت نے خوب فروغ پایا، جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک نے اس شعبے پر پوری توجہ دی، چناں چہ اس وقت وہاں دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں۔ ان فلموں کو بھارت اپنے عالمی امیج اور تعلقات کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کر رہا ہے۔ اس صنعت سے نہ صرف بھارت میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو روزگار میسر آیا ہے بل کہ بھارتی اداکار ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرکے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ 

اس وقت ہماری فلمی صنعت میں جس طرح بیداری کی لہر آئی ہے وہ خوش آئند ہے۔ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے اور حکومت اور حکومتی اداروں کو اس سب میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں مختلف اور منفرد موضوعات پر اچھی اور معیاری فلمیں بنیں، سنجیدہ موضوعات پر مبنی کہانیوں کی فلم بندی کی جائے، تاکہ ہماری نئی نسل میں ہر قسم کے ظلم اور استحصال کے خلاف شعور بیدار ہو، نہ کہ پابندیوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے فلم کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ