بولنے کی طاقت انسان کو دوسری مخلوقات سے منفرد بناتی ہے قدرت کی طرف سے یہ انعام انسانوں کو عطا ہوا تو حرف وصوت کا اٹوٹ رشتہ بھی قائم ہو گیا ،جب تک صوت ہے تب تک حرف۔ دونوں کے حسین رنگوں کے امتزاج سے لفظی ذریعہ اظہار کی تشکیل ہوئی اور فرد اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے قابل ہو گیا ۔حرف وہ لباس ہے جو مجرد خیالات اور دلنشین امنگوں کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ دل دوز واقعات اور سانحات کو آنے والی نسلوں کے لئےمحفوظ کرتا ہے اور انسان آنے والے زمانے کے لوگوں سے محو گفتگو ہوتا ہے ،مگر بعض اوقات مخاطب کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو چپ لگ جاتی ہے اس کے پیچھے کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ کوئی آپ کا یقین توڑ دے ،اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو شدید رد عمل خاموشی کی صورت میں ہوتا ہے ۔ بعض اوقات شدید غم اور حد سے بڑھا ہوا درد بھی چپ کی وجہ بنتا ہےایسا غم لفاظوں لا محتاج نہیں ہوتا چیختی خاموشی غم کا برملا اظہار کرتی ہے کیونکہ الفاظ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیں بہت سی تلخیوں کو اپنی روح میں جذب کرنا پڑتا ہے ،کڑوے گھونٹ پی کر آگے سے جواب دینے سے خود کو روکنا پڑتا ہے ،ایسے میں لوگ آپ کی تحمل مزاجی اور شرافت سے نا جا ئز فائدہ اٹھا نا شروع کر کے بولنے کی تمیز بھول جاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ صرف زبان ہی بولے ،اگر تربیت عمدہ ہوئی ہے تو وہ زبان کی نعم البدل بن جاتی ہے۔۔ بولنا سب جانتے ہیں کوئی زبان سے بولتا ہے کوئی اخلاق سے ۔۔ اخلاق کا جواب ہمیشہ دندان شکن ہوتا ہے۔ گویائی کی صلاحیت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے ، ہر ایک کے سامنے حالات کا رونا رویا جائے یا لوگوں کو موضوع بحث بنا کر اپنی عاقبت خراب کی جائے۔ ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی ،ہر شخص بتانے کے لائق بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ جسے اپنا ہمدم یا مخلص دوست سمجھ کر اس کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہے ہوں تو وہ اسے سب کے سامنے بیان کرنا شروع کر دے ،آج کل یہی کچھ تو ہو رہا ہے ، اندرونی باتیں اور راز بھی پنہاں نہیں رہے بلکہ محفلوں میں گفتگو کا موضوع بن رہے ہیں ایسے میں عزت دار گھرانوں کی آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔ سچائی کی ہیت بدل کر پیش کرنے میں ہمارہ معاشرہ سب سے آگے ہے خاص کر خواتین ( معذرت کے ساتھ ) اس معاملے میں اپنا بھر پور کردارادا کر رہی ہیں ۔ دنیا میں سب سے مہنگی چیز عزت ہے ،اگر ایک بار گرد آلود ہو جائے تو صاف نہیں ہو سکتی ۔بے شک غلط فہمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو لیکن معاشرہ اس کو پہلے والی عزت دینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں تا کہ سب کی عزت محفوظ رہے ۔ اس کے لئے سب سے ضروری چیز تربیت ہے جو بتاتی ہے کہ بات کب کرنی ہے ؟ کس سے کرنی ہے ؟ کتنی کرنی ہے ؟ اور سب سے مشکل کام کہ کیسے کرنی ہے ؟ اگر ان باتوں پر غور کریں گے تو بہت سے فتنے پیدا ہی نہیں ہوں گے ۔ معمولات زندگی میں سینکڑوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی بات تحمل سے سننی چاہئیے جو اخلاق کا تقاضا ہے ، کوئی بات کر رہا ہے تو اسے بیچ میں نہ کاٹیں اسے اپنی بات پوری کرنے دیں جو ہمارے ادب واحترام کی نشاندہی کرتا ہے ، ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہونی چاہیئےتا کہ بات کی نوعیت اور باریکیوں کی وضاحت ہو سکے کہ ان کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے ۔ پھر اس کے مختلف پہلوں پر غورو فکر کرنے کے بعد ہی اس کی تائید یا تردید ہونی چاہئیے جو دانائی کی دلیل ہے ۔ لیکن ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ہم تحمل سے کسی کی بات سنیں اس پر غور کر نے کے بعد جواب دیں ۔ آدھی بات سن کرہی اپنا جواب داغ دیتے ہیں ،جو آدھی بات کا آدھا اور نامعقول جواب ہوتا ہے ۔ ہمارہ مسلہ یہ ہے کہ ہم سمجھنے کےلیے بات نہیں سنتے بلکہ جواب دینے کے لیے سنتے ہیں یہی جواب دوسروں کے سامنے ہماری پہچان کراتا ہے۔ ہمارے لفظوں کا انتخاب ،آواز کا اتار چڑھاو، چہرے کے تاثرات،الفاظ کی ترتیب ،لہجے کا زیرو بم ہی ہماری شخصیت کا بہترین تعارف ہے ۔ انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے دوسرے کو اس سے بڑھ کر نہیں دے سکتا ،لوگوں کے رویوں اور باتوں سے غمزدہ نہیں ہونا چائییے، ضروری نہیں کہ سب کے پاس اپنائیت، احترام اور خلوص کی دولت ہو اکثریت کی جھولی ان ہیروں سے خالی ہوتی ہے ۔ دنیاوی معاملات میں جہاں سے جو کچھ ملے تو سمجھ جائیں کہ دینے والا اپنے ظرف کے مطابق ہی دے رہا ہے اس سے بڑھ کر دینے کی اس کی اوقات نہیں ۔۔۔۔
22۔11۔22آ