[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/img351.jpg” ]محمد شراف الدین فریادؔ [/author]
قول و فعل میں تضاد کی سیاست کے عنوان سے موصوف نے گزشتہ ایام جو مضمون تحریر کیا تھا اس پر پی پی پی میڈیا سیل سے تعلق رکھنے والے کچھ بھائی سیخ پا ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے ایک دم مقامی اخبارات میں موصوف کے خلاف عجیب و غریب قسم کے پروپیگنڈے کرنے شروع کر دئیے اور ساتھ ہی سمجھ میں نہ آنے والی الزام تراشی بھی ۔ خیر جو بھی ہو اس میں ایک اچھی ڈیولپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ کم از کم پی پی پی میڈیا سیل والے تو مان گئے کہ وہ غضب شدہ زمین ان کے صوبائی صدر کے والد صاحب نے ازخود اپنے نام الاٹ کرایا ہے اور اسے 1982 ء کی کہانی قرار دی گئی ہے ۔ یہاں میں پی پی پی میڈیا سیل والوں کی 1982 ء والی کہانی سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا ہوں ۔کیونکہ محکمہ مال کے ریکارڑ کے مطابق جس بنجر زمین کو خود کاشت ظاہر کرکے پختہ انتقال جمعبندی تیار کی گئی ہے اس میں 1996 ء کا ذکرہے ۔ اُس وقت امجد صاحب کی عمر 13 برس نہیں بلکہ 28 سال تھی اور یہ وہ عرصہ ہے جس وقت گلگت بلتستا ن میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی جس کا ہمارے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہیں۔پی پی پی میڈیا سیل والوں نے میرے اُوپر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہوئے میری صحافت پر بھی انگلی اُٹھائی ہے جس کا میں جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔پی پی پی والے یہ ثابت کریں کہ وزیر اعلیٰ نے انہیں کب اور کتنے پیسے دئیے ہیں تو ہمیشہ کے لیے میں خود کو صحافت سے الگ کردوں گا ۔ الحمد اللہ گلگت بلتستا ن کی صحافت میں ان کا کردار کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اگر اپنی صحافتی ساکھ کی فکر کیے بغیر ذاتی مفادات کی صحافت کرتا تو گلگت بلتستا ن میں وہ خود بھی کئی پلاٹ اپنے نام کرواچکے ہوتے ۔ رہی بات میری بیگم کی تو وہ ایک سیاسی وسماجی ورکر خاتون ہے ۔ بسین کے مقام پر اپنا دفتر قائم کرکے خدمات انجام دے رہی ہے اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان کے سیاسی بیانات میں نہیں بلکہ میڈیا کے نمائندے جاری کرتے ہیں ۔ جو کسی بھی سیاسی ورکر کا جمہوری حق بنتا ہے ۔ ان کی سیاسی بیانات کو مجھ سے منسوب کرنا درست بات نہیں ہے ۔ ہاں میں نے قول و فعل میں تضاد کی سیاست کے عنوان پر مضمون تحریر کرکے آئینہ ضرور دکھا یا ہے مگرآئینے میں کسی کو اپنا چہرہ خراب نظر آتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔۔۔؟
قارئین کرام ! میں تو اپنے موقف پر اب بھی قائم ہوں کہ وہ غضب شدہ زمین پی پی پی کے صوبائی صدر نے اپنے والد کے نام پر الاٹ کردیا ہے اور اس ایریامیں ان کا کوئی مالکانہ حق نہیں بنتا ہے۔ اس ایریا کی حدود بندی کا کوئی تنازعہ عدالت میں نہیں چل رہاہے بلکہ قدیم بندوبستی ریکارڈ کے مطابق مذکورہ زمین برمس ، نگرل ، اور کھر کے عوام کی ملکیت ہے ۔ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ زمین پی پی پی کے صوبائی صدر کے والد نے ازخود اپنے نا م پر الاٹ کرایا ہے تو امجد صاحب اسے اپنے والد صاحب کی نادانی یا غلطی سمجھ کر متعلقہ آبادیوں کے لوگوں کو واپس کیوں نہیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔؟ امجد صاحب تو عوام کی حق ملکیت کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ رہی بات پی پی پی والے مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس ایشو کو کھڑا کرکے عوام کو آپس میں لڑانے کی سازش کررہا ہوں تو پھر امجد صاحب مذکورہ غضب شدہ زمین واپس کرکے اس سازش کو ناکام بنادے نا ۔۔۔۔۔۔!
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1980 ء سے نوتوڑ زمینوں کے انتقالات پر پابندی عائد تھی اس لیے اس بنجر زمین کو خود کاشت ظاہر کرکے الاٹ کردیا گیا جو کہ سراسر بد نیتی پر مبنی ہے۔ امجد صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے اس غیر قانونی انتقال کو منسوخ کراکر مذکورہ زمین کو اصل مالکانہ حق رکھنے والوں کے سپرد کردے ۔ ورنہ وہ جہاں بھی جائیں گے اور حق ملکیت کی بات کریں گے تو عوام ان کی قول و فعل میں تضاد کی سیاست پر انگلی ضرور اُٹھائیں گے ۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ