ہنزہ نیوز اردو

حقوق نسواں اور ہمارا معاشرہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں۔۔۔۔۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔اس مصرعے کویقیناًاب تک بے شمار صاحبان قلم اپنا موضوع بنا چکے ہیں اور سبھی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کی تعبیر پیش کی ہے۔ یہ مصر عہ عورتوں کے مقام اور مرتبے کاجامع اظہار ہے۔ معاشرے میں خواتین کی حقوق کے حوالے سے چند باتیں پرنٹ میڈیا کی وساطت سے ارباب اختیار، اہل محراب ومنبر تک پہنچانا چاہتا ہوں۔مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا معاشرہ آج بھی عورت کے مساوی مقام اور حیثیت کو تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ بلاشبہ انفرادی اور تنظیمی حیثیت میں کئی خواتین و حضرات حقوق نسواں کے لیے کوشاں ہیں لیکن ہمارے خطے میں حقوق نسواں کے حوالے سے کو ئی ایسی منظم تحریک موجود نہیں ہے جو کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے۔ سول سوسائٹی کاکردار اس حوالے سے اہم ہے لیکن سیاسی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے حقوق کی صورت حال مخدوش ہے۔ معاشرتی سطح پر آج بھی بنت حواء کے حقوق کی پامالی جاری ہے۔ آج بھی معاشرے میں خواتین کے حقوق پربات کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی عورت کو مرد کے برابر انسان تسلیم کرنے کی بجائے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو معاشرتی تربیت کے عمل پر سوالیہ نشان ہے۔
ایک اندازے کے مطابق خطے کی ساٹھ فیصد آبادی بالائی علاقہ جات پر مشتمل ہے اورکہاجاتا ہے کہ ایسے مسائل شہری علاقوں کی نسبت بالائی علاقہ جات میں زیاد ہ پیش آتے ہیں جس کی اصل وجہ شرح خواندگی کی کمی ہے۔ہمارا مذہبی طبقہ بھی بدقسمتی سے اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ بلتستان کے ہرمحلے میں کئی مولوی دیکھنے کو ملیں گے لیکن یہ مولوی صاحبان بھی ہمارے سیاست دانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں مشغول ہو گئے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ ان پر دینی اور معاشرتی حوالے سے بھی کچھ شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کی قدرو منزلت دیکھیں تو ماں کے قدموں تلے جنت ہے ، اگربہن ہے تو خاندان کی غیرت ، بیٹی ہے توخدا کی رحمت ، اور اگر بیوی ہے تو گھر کی زینت اور زیور سمجھے جاتی ہے لیکن اس سب سے بڑھ کر عورت کواسلام نے عزت اور احترام دیاہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔مگربدقسمتی سے ہمارے معاشرے میںآج بھی اگر کسی کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوجائیں توانہیں عیب سمجھا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سُنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے معاشرے میں عورت کے مقام کوسمجھیں کیونکہ اسلام نے جو مقام عورت کو عطا کیا ہے شائد ہی دنیا کے کسی مذہب نے دیا ہو۔
یوں خاتون جنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی عظیم شخصیت اسلام میں عورتوں کی حیثیت کے حوالے سے اہم ترین مثال ہے جنہیں سرور کائنات نے فاطمہ اُم ابیہا کا لقب دیا ۔ سیدہ کونین سلام اللہ علیہ کے بارے میں ڈاکٹر علی شریعتی فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ بی بی کی شخصیت کا کوئی پہلو بیان کروں لیکن میرے پاس الفاظ نہیں تھے کیونکہ فاطمہ تو فاطمہ ہے۔ بالکل یہی مثال آج کی عورت کی بھی ہے کہ اگر وہ بی بی فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں اپنی اہمیت اور حیثیت کا احساس پیدا کریں۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی حوالے سے سیرت فاطمہ اور مقام فاطمہ کو ذہن میں رکھ کرحقوق نسواں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اگر ہم گلگت بلتستان کے معاشرے کاپاکستان کے دیگر علاقوں سے موازنہ کریں تو خوش آئند امر یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت خواتین کے لیے زیادہ محفوظ ہے لیکن خواتین کو وہ مقام یہاں بھی حاصل نہیں جو اسلام نے انہیں دیا ہے ۔ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت بیٹی کے روپ میں تو بہت عزیزہے لیکن بہوکی روپ میں قابل قبول نہیں۔ ساس بہو کے تعلقات اور ایک دوسرے کے لیے بدگمانیاں اور رشتہ داروں کی جوڑ توڑ اس وقت معاشرے کے لیے ایک ناسوربنی ہوئی ہے ۔ آج بھی بہت سے گاوں اور دیہات ایسے ہیں جہاں بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہیں اورآج بھی بچیوں کے لیے سکول موجود نہیں۔مخصوص دینی مسائل اور صحت کے معاملات کے لیے انہیں مرد حضرات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
حصول تعلیم کے لیے لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات ہے یہاں تو کسی گھریلو مسئلے پر عورت سے مشورہ لینا بھی عیب سمجھاجاتا ہے حالانکہ اسلام نے اس وقت مر اور عورت کو یکساں حقوق دیئے تھے جب دنیا میں حقوق نسواں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی حقوق نسواں کے معاملے پر خاموش رہتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں قرآن پڑھنے کا چلن تو ہے لیکن قرآنی علوم سے استفادہ کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔قرآن مردُوں کی بخشش کے لیے تو کثرت سے پڑھاجاتا ہے لیکن زندوں کی اصلاح کے لیے قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والا کہیں نظر نہیں آتا ۔ ستم یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارا سیاسی نظام اپاہج نظر آتا ہے تو دوسری طرف دینی خدمت کے دعوے دار بھی اسلام کو صرف ذاتی عزت اور شہرت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔معاشرے میں آج بھی ایسے علمائے کرام موجود ہیں جو محدود وسائل کے باوجود معاشرتی تربیت کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں لیکن معاشرے میں ان کی قدر نہیں کی جاتی جو کہ نہایت دکھ اور افسوس کی بات ہے۔آخر میں صحافتی برادری اور پرنٹ میڈیا مالکان سے گزارش کروں گا کہ معاشرے میں دین کے نام پر ہونے والے کاروبار کو روکنے اورعوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اللہ ہم سب کو سچ بولنے سُننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(نوٹ:یہ کالم مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفت و شنید کے بعدلکھا گیا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے اپنی آراء اور مثبت تنقید سے ضرور آگاہ کریں۔ شکریہ)

از۔شیرعلی انجم

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ