[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/15590152_1635293576496594_4305974050698383833_n.jpg” ]کریم مایور[/author]
گزشتہ سال اور اس سال ہمارے گاوں میں کیڑوں کی ایک نسل حملہ آوار ہوئی ہے جنہوں نے گاوں کے پودوں کو بہت نقصان پہنچایاہے یہ کیڑے اتنے خطرناک ہیں کہ کچھ ہی دن میں بہت سے پودوں کے اندر سے جان نکال کر ان کو بے جان کر دیتی ہے اور بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔ بہت سے ماہرین آئے اور مختلف قسم کی کیڑے مار ادویات دے کر چلے گئے مگر ان ادویات سے اُن کا خاتمہ تو نہ ہوسکا البتہ اُن کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا۔ پورے گاوں میں اُن کیڑوں نے خوف اور ڈر کا جال پھلا ئی ہوئی ہے۔ پودے تو پودے اگر یہ کیڑا انسان کی جسم پہ لگ جاتے ہیں تو ایک خارش شروع ہو جاتی تھی اور انجکشن کے بعد ہی سکون ملتا تھا اس وجہ سے بہت سے لوگ ان کیڑوں کے پاس جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔۔۔ جب بارشیں شروع ہوئی تو لوگوں نے سوچا کہ اب ان کیڑوں کا خاتمہ ہو گا مگر بارش تو ان کیڑوں کے لیے اب حیات ثابت ہوئی اور وہ تیزی سے پھلنے لگے۔۔ بات پودوں تک محدود نہ رہی بلکہ خونخوار کیڑے لوگوں کے گھروں میں گھسنے لگےہیں۔۔۔ گزشتہ سال جب گاوں میں سردیاں شروع ہوئی تب جا کر کیڑے کم ہونے لگے تھے اور مکمل سردیوں تک ان کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ سردی کی وجہ سے مر گئے تھے یا کسی پناہ گاہ میں گرمیوں کا انتظار کر رہی تھے خدا معلوم مگر اس سال پھر کیڑوں کی فوج ظفر حملہ آوار ہوئی ہے ۔ اب تک یہ بھی نہیں پتا کہ حکومتی اداروں نے آئندہ سال کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں کہ نہیں ۔ مگر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ کیڑے کہاں سے آئے ہیں اس کے لئے ہم زرا اپنے آباواجدا کے زمانے میں چلتے ہیں کیونکہ اس سلسے کی کڑیاں وہی سے ہمیں ملیں گی۔ آج سے تیس سال قبل ہمارے آباواجدا صبح سویرے اُٹھ کر اللہ کا نام لے کر اپنے کام پر نکل جاتے تھے زیادہ تر کاشت کار تھے جو سارا سال زمینوں میں کام کرتے تھے اور زمین سے پورے سال کا کھانا ملتا تھا بہت کم چیزیں ایسی تھی جو بازار سے منگواتے تھے گندم۔ آلو باجرا مکئی سب کچھ سال ہا سال لوگوں کے پاس زخیرہ ہوتا تھا محنت کش لوگ تھے زمین بھی خوش تھا ان لوگوں سے جو سارا سارا دن زمین میں محنت کر کے اپنا رزق تلاش کرتے تھے مختلف رنگ نسل کے پرندے ہوتے تھے جن کو زمین سے ہی دانہ پانی مل جاتا تھا ۔ پھر وقت گزارتا گیاجو محنت کش لوگ تھے وہ ایک ایک کر کے گاوں سے کوچ کر گئے جو نئی نسل آئی اُنہوں نے زمین کے علاوہ زریعہ معاش کے دوسرے طریقے تلاش کئے کچھ کاروبار میں لگ گئے اور کچھ حصول علم کی خاطر شہروں کی طرف کوچ کر گئے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے شہر کو مستقیل ٹھکانہ بنا لیا جس کی وجہ سے زمین میں کاشت کاری کم ہونے لگی اور اب حال یہ ہے کہ لوگ زمینوں میں آلو کے سوا کوئی فصل نہیں اُگاتے کیونکہ کہ آلو سردیوں میں کھانے کے کام بھی آتی ہے اور فروخت کرنے سے اچھی قیمت بھی مل جاتی ہے لوگوں نے مکئی گندم اور دوسری فصل کی کاشت کاری کرنا بلکل بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے پرندوں کی نسل ختم ہوگئی اور کچھ پرندے ہجرت کرکے گرم علاقوں میں چلے گئے۔۔ اور یہی سے ان کیڑوں کی افزیش نسل پروان چڑھنے لگی کیونکہ جب تک مختلف قسم کے پرندے تھے تب تک کوئی کیڑا نہیں ہوتا تھا کیونکہ پرندے ان کیڑوں کو کھا جاتے تھے۔۔ اب حال یہ ہے کہ ہماری سُستی اور کاہلی کی وجہ سے ہمارے فصلوں میں کیڑے لگنے شروع ہو گئے ہیں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ زمین پر موجود ہر جاندار انسان کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے اُن کی دانہ پانی کی زمہ داری بے شک اللہ نے اُٹھا رکھی ہے مگر انسان کے اُوپر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی یے کہ وہ اپنی بقا کے لئے جدوجہد کریں۔ ہمارے آباواجدا نے جس زمین کو سونا بنا کر ہمارے حوالے کی ہے اُس کے دیکھ بال کریں ۔۔ یہاں پر مجھے مولانا روم کی ایک حکایت یاد آرہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس روح زمین پر جوبھی جاندار ہے وہ انسان کی سہولت کار ہے جو انسان کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے جب انسان اپنی سہولت کار کا خیال نہیں رکھتا پھر وہاں کیڑے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔