ہنزہ میں انتخابات کے دوران عموماً دو تصورات کے ذریعے ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے. سب سے پہلے یہ کہ ایسے امیدوار کو منتخب کرنا چاہیے جو ذاتی اور سیاسی طور پر با اثر ہوں تاکہ وہ پاکستان جیسے معاشرہ میں اپنے ذاتی یا سیاسی اثر سے کام کرسکے۔ دوئم، ایسے امیدوار کو منتخب کیا جائے جواسلام آباد میں حکمران جماعت کے ساتھ منسلک ہو تاکہ وہ ترقیاتی کاموں کو موثر انداز میں انجام دے سکے۔ یہ خود ساختہ تصورات کئی دہائیوں سے انتخابات کے دوران کام کرتے آرہے ہیں.
ریاست ہنزہ کے خاتمے کے بعد میر غضنفر زیادہ عرصہ منتخب ہوکر ہنزہ کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں ۔تاہم پیپلز پارٹی کے امیدوار بھی تین بار جیتنے میں کامیاب ہوئے جب اسلام آبادمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی. ہنزہ سے منتخب نمائندوں کو گلگت بلتستان کی حکومت میں اعلی عہدوں پر فائز ہونے کا کئی بار موقع ملاہے. مثال کے طور پر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں میر غضنفر گلگت بلتستان کے پہلے چیف ایگزیکٹو مقرر ہوئے تھے. وزیر بیگ گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے. اور اب میر غضنفر گلگت بلتستان کے گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا بااثر امیدوار یا حکمران پارٹی سے منسلک امیدوار نے ہنزہ کے عوام کی زندگیوں میں کوئی واضح بہتری لائی ہے؟ ایک سرسری تجزیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک خام خیالی یا خود ساختہ کہانی ہے کہ ایک بااثر نمائندہ ہنزہ کے عوام کی تقدیر بدل دے گی. اس تصور نے یا تو خاندان کی سیاست کو فروغ دیا یا منتخب نمائندے ہنزہ کے لوگوں کی بجائے مرکزی پارٹی کے زیادہ وفادار رہے. آئیے ایک نظر ڈالتے ہے کہ ان نام نہاد بااثر سیاسی رہنماؤں نے ہنزہ کی ترقی میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہنزہ کو اس وقت بجلی کی شدید بحران کا سامنا ہے. کچھ علاقوں میں ایک دن میں چند گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے تو کچھ علاقوں میں پورا ہفتہ بجلی غائب رہتی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگیوں مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے. مثال کے طور پر چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کو اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے لیے جنریٹر کا استعمال کرنا پڑتاہے جو ایک طرف اخراجات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے تو دوسری طرف ماحول پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ بجلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبا کی تعلیم میں خلل پڑتاہے۔ اسی ظرح سیاحت کا شعبہ بھی بجلی کی کمی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے. مختصر یہ کہ بجلی کے بحران نے ہنزہ میں زندگی کے ہر شعبے کو مفلوج کررکھاہے۔
دوم، ہنزہ میں صحت کے شعبے کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ پورے ضلع میں ایک بھی ایسا سرکاری ہسپتال نہیں ہے جو لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولت فراہم کر سکے۔اس صورت حال میں لوگ مجبورا علاج کے لیے یاتو گلگت کا رخ کرتے ہیں یا پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرف۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ طویل سفر کا عذاب بھی جھیلنا پڑتاہے۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ ہنگامی صورت حال میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیھتے ہیں۔
سوم، ہنزہ میں شاید مشکل سے کوئی سرکاری اسکول یا کالج ملے جو کو گلگت بلتستان سطح پر ماڈل کے طور پر دیکھا جا سکے۔۔ عوام سرکاری سکولوں / کالجوں کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کہ وجہ سے اپنے بچوں کو نجی یا کمیونٹی سکولوں / کالجوں میں پڑھانے میں مجبور ہیں. اس صورتحال میں وہ طلباء بہت متاثر ہورہے ہیں جن کے والدین نجی اسکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔
مزید برآں یہ کہ ہنزہ کے عوام کئی سالوں سے اپنی زمینوں کی معاوضے کے منتظر ہے جو قراقرم ہائی وے کی توسیع کے دوران استعمال میں لائی گئی ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سیاسی نمائندے اس مسئلہ کو حل کرنے بجائے سیاسی فوائدحاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ہنزہ کی تاریخ میں پہلی بار پولیس فائرنگ سے دو معصوم باپ بیٹے کو اس وجہ قتل کیا گیا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے پر امن احتجاج کر رہےتھے۔ یہ واقعہ اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں ایک ہی پارٹی کی متخب حکومت کی دور میں ہوا جبکہ اس حکومت میں سپیکر کا عہدہ پر ہنزہ سے منتخب نمائندہ فائز تھے۔
ہنزہ، چین کی فوری پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہ شاہراہ قراقرم اور چین پاکستان راہداری کے لیے ایک دروازہ کی حیثیت رکھتاہے۔ بالائی ہنزہ کے گاوں سوست میں موجود ڈرائی پورٹ ملک کے لیے سالانہ اربوں نہیں تو کروڈوں کماتا ہے لیکن اس سے ضلع کی ترقیاتی کاموں میں کچھ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ مذید یہ کہ سوست ڈرائی پورٹ عوام کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا لیکن ان بااثر نمائندوں کی ذاتی لالچ کی وجہ سے ڈرائی پورٹ ایک طرف تو بنک کے نادہندہ قرار دیا گیا تو دوسری طرف سے ڈرائی پورٹ کو متنازعہ بنا کر عوام کے ہاتھوں سے نکالا جارہا ہے۔
ہنزہ کے عوام کی اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کے جذبہ اور کچھ سول سوسائٹی تنظیموں کی شمولیت کی وجہ سے ضلع میں شرح خواندگی میں کافی اضافہ ہوا ہے اور کچھ مقامی تنظیموں کی قیام کی وجہ سے عوام اپنی مدد آپ کے تحت اپنی ترقی کے لیے بہت کوشش کر رہا ہے۔ لیکن سیاسی نمائندوں کی کردار ہنزہ کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں حوصلہ افزا نہ رہا ہے۔
مثال کے طور پر گزشتہ اپریل میں شدید بارشوں کی وجہ سےہنزہ میں بنیادی ڈھانچے ۔جیسے سڑکیں، پانی کے چینلز،مکانات۔ کو شدید نقصان پہنچا۔ ضلع سے گورنر اور گلگت بلتستان اسمبلی میں ایک خاتون رکن ہونے کے باوجود لوگ کئی دنوں تک حکومت کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ جب حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو لوگوں مجبوراً اپنی مدد آپ کے تحت کئی دنوں کی سخت محنت کے بعد سڑکوں اور چینلز کو خود ؓبحال کرنا پڑا.
ہنزہ میں ضمنی انتخابات اگلے چند ہفتوں میں ہونے والے ہیں۔ ایک بار بھر با اثر اور حکمران جماعت کی امیدوار کی حمایت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ہنزہ کے عوام کو اب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس تصور کا ہنزہ کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ یہ طاقت کا ارتکاز اور خاندانی سیاست کو فروغ دے رہا ہے۔ عوام کو اب ایک نئے انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے اور اس دفعہ ایک عام اور کم بااثر نمائندہ کو منتخب کرے۔ ایک ایسانمائندہ جن تک رسائی آسان ہو اور ان کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکے۔
پھسوٹائمزاُردُو کی اصل اشاعت