ہنزہ نیوز اردو

ہم کب سمجھیں گے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری
کالم نویس، افسانہ نگار، بلاگر اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ یہ صفحہ ان کی مختلف النوع تحریروں پر مبنی ہے۔[/author]
چینی صدر شی چی پنگ کا دورہ ہمیں بہت سی خوشی اور ڈھیر سارا اعتماد لے کر آیا ہے۔ ثقافت، زبان، طرزحیات، نظام حکومت اور نظریات کے اختلاف کے باوجود پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا رشتہ بہت مضبوط رہا ہے۔ یہاں ”دوستی“ کا لفظ ہم اس لیے استعمال کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی اور لفظ نہیں جو دو قوموں کے باہمی اچھے تعلق کی ترجمانی کرسکے، ورنہ ممالک کے درمیان دوستی، محبت اور وفا جیسا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ وہ ملک بہت خوش نصیب ہے جسے کسی دوسرے ملک کی خالصتاً اور صحیح معنوں میں دوستی اور محبت میسر آجائے، ہم ایک ایسی ہی خوش نصیب قوم ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی خوش نصیبی کو بدنصیبی میں بدل دینے کے عادی ہیں اور اپنی ہی صورت بگاڑ لینا ہمارا دیرینہ اور محبوب مشغلہ ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں آگے چل کر کروں گی، پہلے بات ہوجائے پاک چین تعلقات اور چینی صدر کے دورے کی۔
چین کے صدر شی جی پنگ کی پارلیمینٹ میں تقریرسُن کر ایسا محسوس ہوا جیسے ہمارے خواب پورے کرنے جادونگری سے کوئی جادوگر آیا ہے۔ اس دورے میں مختلف پروجیٹکس کے سمجھوتے اپنی جگہ، لیکن چینی سربراہ کا یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے بھارتی وزیراعظم کے مئی کے وسط میں چین کے دورہ سے قبل چینی صدر کی بھارت سے متعلق سوچ کا بھی پتا چل سکتا ہے۔
بھارت ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا محور رہا ہے۔ ایسے میں جب دہلی میں مسلم دشمنی اور پاکستان سے عناد رکھنی والی مودی حکومت برسراقتدار ہے، امریکا ہم سے حسب منشا کام لے کر افغانستان سے جانے کو پر تول رہا ہے اور وہاں بھارت کے اثرورسوخ بڑھانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے، مختلف ایشوز پر ایران سے ہمارے فاصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ گوادر کے مقابلے میں بھارت کی مدد سے چاہ بہار پورٹ تعمیر کر رہا ہے، اور پھر سعودی عرب، جسے ہم حال ہی میں ناراض کر بیٹھے ہیں، چینی صدر کا دورہ، ان کی تقریر، وعدے اور ارادے پاکستان کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ہیں، معاشی اعتبار سے بھی اور عالمی تعلقات کے ضمن میں بھی۔
چینی صدر کے اس دورہ کا ایک اہم مقصد چین اور پاکستان کے درمیان مجوزہ اقتصادی راہداری ہے اور یہ اقتصادی راہداری کاشغر سے گوادر بندرگاہ کی تک ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شی جی پنگ کا حالیہ دورہئ پاکستان جنوبی ایشیا کی شکل تبدیل کر سکتا ہے، کیوں کہ چین بحیرہ عرب تک پاکستان کی زمین کا استعمال مشرق وسطی سے تیل حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔
چین کا منصوبہ ہے کہ مشرق وسطی سے آنے والا تیل پہلے گوادر کی بندرگاہ تک اور پھر وہاں سے مجوزہ راہداری سے سڑک اور ریل کے راستے سے اس کی سرحد تک آسانی سے پہنچایا جا سکے گا۔
اس مقصد کے لیے اسے ابھی تک تقریباً بارہ ہزار کلو میٹر کا طویل بحری راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ راہ داری چینی مصنوعات کی مشرق وسطیٰ تک آسان رسائی کا باعث بھی بنے گی۔
اس راستے کے تعمیر کے ساتھ ہی اس راہداری میں بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات بھی لگائی جائیں گی، جو بجلی کے شدید بحران میں پاکستان کی شدید ضرورت ہے۔
اس پاک چین راہداری کا پہلا مرحلہ سنہ 2006 میں اختتام کو پہنچا تھا، لیکن اب تک معاملہ وہیں ہے، کئی سال گزر جانے کے باوجود اس کی خوبیوں یا خامیوں کا پتا نہیں چل پایا۔ اس لیے چین نے ایک بار اسے آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں خطے میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی اور پاکستان خلیج سے توانائی کی منتقلی کا مرکز بھی بن جائے گا، جب کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ دوسری طرف اس راہداری کے مکمل ہونے کے نتیجے میں چین خلیجی علاقے، افریقہ، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں سے بہ آسانی اور کم وقت میں جُڑسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کا یہ مشترکہ منصوبہ بھارت کو پریشان کیے ہوئے ہے جو ان دونوں ملکوں کی ترقی اور خوش حالی برداشت نہیں کرسکتا۔
معاملہ صرف اقتصادی پہلو نہیں رکھتا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گوادر جیسے گہرے سمندر کی بندرگاہ میں چین کی موجودگی آج تو صرف تجارتی وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے لیکن اس بات کا امکان بہت غالب ہے کہ یہ چین کی بحریہ کے لیے ایک بحری اڈا بن جائے اور مستقبل میں یہاں چین پاکستانی بحریہ کے ساتھ مل کر کام کرے۔ چناں چہ بھارت اس حوالے سے بہت فکرمند ہے۔
پاک چین اکنامک کوریڈور کے اس منصوبے سے چین کو کتنے وسیع پیمانے پر فوائد حاصل ہوں گے، اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ مفاد کا معاملہ ہے دوستی کا نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حوالے سے پاکستان اور چین دونوں کے مفادات ایک ہی کشتی پر سوار ہوگئے ہیں، جو پاکستان میں موجودہ حالات میں ہمارے لیے بہت سودمند ہے۔ مگر یہ ڈر ہے کہ ہم اپنی ”روایت“ کے مطابق ان فوائد سے محروم نہ ہوجائیں جو اس منصوبے سے ہمیں حاصل ہونا ہیں۔ 
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دیگر ممالک سے تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرنا نہیں جانتے۔ پھر کچھ بیرونی طاقتوں کو بھی ہماری ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی، اس لیے وہ ہر اس راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں جو ہماری ترقی کی طرف جاتا ہو۔ پاک چین مشترکہ منصوبوں ہی کو لیجیے، چینی انجیئرز کا قتل اور بلوچستان کی صورت حال انھی قوتوں کی کارستانیاں ہیں، جن کا آلہئ کار ہمارے ہی لوگ بن رہے ہیں۔ بہکاوے میں آکر اور اپنی اغراض کے لیے ایسا کرنے والے لوگ پاکستان کے خیرخواہ تو ہیں ہی نہیں وہ کسی ایسے طبقے کا بھلا بھی نہیں چاہتے جس کے نام پر وہ بدامنی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پاکستانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکتا۔
دہشت گردوں کا تو معاملہ یوں الگ ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے آلہئ کار بن کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں، لیکن ہمارے حکم راں بھی اپنے ذاتی اور سیاسی فائدوں کی خاطر یا اپنی کم فہمی کی بنا پر یہی کچھ کرجاتے ہیں۔ پہلے ہم نے امریکا کا ”یس مین“ بن کر چین کا ناخوش کردیا تھا اور اب ہم سعودی عرب کو ناراض کر بیٹھے ہیں۔ میں نے کالم کے آغاز میں جس خوش نصیبی کا ذکر کیا تھا وہ پاکستان کو حاصل سعودی عرب کی دوستی ہے، جو صحیح معنی میں دوستی ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اور ہر معاملے میں ہمارا بے غرضی سے ساتھ دیا ہے۔ ایسا تعلق کسی ملک کے لیے نعمت سے کم نہیں، لیکن یمن کے معاملے میں سعودی عرب کی درخواست قبول نہ کرکے اور پھر اس ایشو کو پارلیمنٹ میں لاکر ہم نے کوئی عقل مندی نہیں کی۔ ایسے دیرینہ دوست اور مددگار کے ساتھ غیرجانب داری کا رویہ، اخلاقیات کو تو چھوڑیے، ہمارے مفاد
 میں بھی نہیں۔ پاک چائنا اکنامک کوریڈور ہی کو لیجیے، اس حوالے سے بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے اچھے تعلقات ہماری ضرورت ہیں۔ اگر بھارت ایرانی پورٹ چاہ بہار کے راستے مشرق وسطیٰ سے معاشی روابط بڑھالے اور چین بھی گوادر کو بھول کر اس راستے کو اپنانے کی سوچے تو یہ صرف سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے ہماری دوستی ہوگی جو ہمارے کام آئے گی۔ ہمارے حکم راں فیصلے کرتے ہوئے صرف آج کا مفاد دیکھتے ہیں، اور نتیجہ ہمارے نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کاش ہمارے حکم راں اور سیاست داں سیاسی اغراض کو بھلا کر معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھ سکیں اور فیصلے کرسکیں۔
 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ