حکمران چاہئے کسی بھی خطے کا ہو اُنکی خواہش ہوتی ہے کہ اُ نکے دور حکومت میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے جو آنے والے وقتوں میں انکی سیاسی ساکھ کو نقصان پونچائے یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ ہمیشہ اس طرح کے ناموافق حالات سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات حکمران طبقہ جس قانون کو بقائے امن کیلئے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قول فعل میں تضاد کی وجہ سے وہی قانون نقص امن کا مسلہ بن جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے مختصر جائزہ لیں تو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا یہ ملک گزشتہ کئی دہائیوں نے اسلام کے نام پردہشت گردی کی لپیٹ میں ہے،اس کی مختلف وجوہات اور محرکات ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ ہے جو خطے میں اپنی من پسند پالیسیاں نا فذ کرنا چاہتی ہیں۔سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ آج تک اس کی کوئی متفقہ علمی تعریف سامنے نہیں آسکی۔ ہر ایک کی نظر میں اس کی مختلف تشریح ہو سکتی ہے۔ میرے خیال سے دہشت گردی کا مطلب جب کوئی فرد، گروہ، ادارہ یا حکومت دوسروں کے بنیادی حقوق کا احترام کئے بغیر ان پر مارؤائے آئین (آئین تو خیر ہمارے ہاں ہے نہیں)اپنی مرضی، سوچ، نظریہ، پالیسی یا عقیدہ دھونس دھمکی یا تشدد کے زریعے زبردستی مسلط کرنا چاہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی بار اُنیس سو اٹھاسی میں وقت کے حکمران کی سرپرستی میں اس خطے میں طالبانی نظرئے کو مسلط کرنے کی کوشش میں لشکر کشی کی گئی اس واقعے کے بعد ایک طرح سے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے اس عظیم خطے کو مسلسل اپنی لپیٹ میں رکھا یہاں عقیدے کی بنیاد پر قتل غارت کا سلسلہ وقتا فوقتا آج بھی جاری ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومت نے گلگت بلتستان میں دہشت گردی، بدامنی اور فرقہ واریت کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے 140افراد کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت شیڈول فور میں شامل کرکے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم اس خطے میں دیرپا امن کے خواہاں ہیں لہذا ہماری نیک نیتی پر کسی بھی قسم کی شک کئے بغیر اس قانون کی نفاذ کیلئے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ شیڈول فور میں شامل افراد کو متعلقہ قانون کے تحت متعلقہ اضلاع کے ایس پی کے پاس حلف نامہ جمع کرکے یہ بتانا ہوگا کہ وہ آئندہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہونگے،یہ لوگ کسی دہشت گرد یا فرقہ وارانہ تنظیم یا جماعت کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان تمام افراد کواپنے آبائی علاقوں سے کسی دوسری جگہ جانے کیلئے متعلقہ ایس ایچ او سے باقاعدہ اجازت لینا ہوگی‘پولیسکویہ اختیاربھی دیا ہے کہ وہ شیڈول فور میں شامل شخص کو کسی مخصوص جگہ یا علاقے میں جانے سے روک سکتی ہے۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کو یہ حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ انکی سرگرمیوں،نقل و حمل اور حرکات و سکنات کی مسلسل نگرانی کریں اگر ضروری سمجھے تو انہیں گرفتار کر کے ایک سال تک زیرحراست رکھ سکے گی ،پولیس کو ان کے بیوی بچوں اور والدین کے اثاثوں، بنک اکاونٹس اور ذرائع آمدن کی چھان بین کرنے کا بھی اختیار حاصل ہو گا۔ چلیں جی مان لیا بہت اچھا کام ہوا ہے ہمیں حکومت کی نیک نیتی پر بلکل شک نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دہشت گردی کاقلع قمع معاشرے کی اہم ضرورت ہے لیکن بطور عوام یا معاشرے کا ذمہ دار شہری قانون نے ہمیں اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ ہم دہشت گردی کی جو تعریف حکومت کرتے ہیں اُن سے اسی عنوان سے سوال پوچھیں کہ آپ آخر کرنا کیا چاہتے ہیں جن ایک سو چالیس افراد کا نام شامل کیا گیا ہے اُن میں کچھ افراد کے علاوہ سماج کے ایسے مذہبی ،سیاسی ، سماجی اور صحافتی شخصیات شامل ہیں جو دہشت گردی اور فرقہ واریت کی خاتمے ہمیشہ سے سرگرم ہیں لیکن نہیں معلوم حکومت کس قسم کی بوکھلاہت کا شکار ہے کہ وہ بغیر سوچے اور سمجھے ذاتی اور سیاسی اختلاف کوبھی طاقت کے بول بوتے پر دہشت گردی کے ترازو میں تولتے ہیں جو کہ خطے کی مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں۔ سب سے پہلے حکومت وقت کو اپنا گریبان کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان ایک متازعہ خطہ ہے اور وفاق پاکستان کی طرف سے اس خطے کو آئینی دہارے میں شامل کرنے کے مطالبے کو کئی بار مسترد کرنے کے باوجود یہاں عوامی وفادریوں کے سبب حکومت پاکستان کی رٹ قائم ہے اور جو نظام یہاں کھڑی ہے اُسے آئین میں پروٹیکشن حاصل نہیں بلکہ یہ پورا نظام صرف صدارتی حکم نامے کے تحت کھڑی ہے۔لہذا یہاں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کیلئے کوشش کرنے والوں ،قومی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے پرنٹ میڈیا پرسنزکو بھی دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنا حکومتی بدنیتی کی انتہا ہے لہذا حکومت وقت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ طاقت کاناجائز استعمال معاشرے کیلئے تباہ کن عمل ہوسکتا ہے ۔لہذا جب قانون پر عمل درآمد کرنے کی بات کریں تو قانون کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے ہونگے ایسا نہیں ہے کہ کوئی مذہبی رہنما جو آپ کو پسند نہیں اور اور آپ اٹھا کر اُسے دہشت گرد ی کی لسٹ میں شامل کریں اگر ایسا ہی ہے تو خود وزیر اعلیٰ کیلئے بھی کچھ طبقات یہی نظریہ رکھتے ہیں لہذا انکا نام بھی اس لسٹ میں شامل کرلینا چاہئے اور بھی کئی اہم سیاسی لوگ ہیں جوبلواسطہ یا بلاواسطہ یہاں منافرت کی سیاست کو ہوا دیتے ہیں اُنہیں کس بات کی کلین چٹ ملی ہوئی ہے؟ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ایک بہترین حکمران وہ ہوتا ہے جو احتساب عمل اپنے گھر سے شروع کریں لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہے ۔لہذا حکومت وقت کو چاہئے کہ اس قانون پر نظر ثانی کریں کیونکہ اس قانون کے اندر انتقام ذیادہ اور خلوص کا عنصر نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ حکومت نیک نیتی کے ساتھ خطے کی قانونی حیثیت کو سامنے رکھ کر اجتماعی ضرورت اور بہتر مسقتبل کیلئے کوئی بھی قانون بنائے عوام کیلئے قابل قبول ہوگا لیکن نظریاتی اختلافات کو دہشت گردی کے کھاتے میں شامل کرکے زدکوب کرنے کا یہ سلسلہ کھلی دہشت گردی ہے لہذا دہشت گردی چاہئے اسلام کے نام پر کرے یا حکومت کے نام پر عوام کو قبول نہیں ۔لہذا اس حوالے سے نظر ثانی کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے اُسے استعمال کرتے ہوئیجو لوگ واقعی میں اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اسلامی حرکات میں ملوث ہیں اُنہیں کڑی سزا اور جنہیں پسند ناپسند کیا بنیاد پر اس شیڈول میں شامل کیا ہے اُنہیں انصاف مل جانا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو گلگت بلتستان کی پولیس کو کون نہیں جانتا یہاں تو ایک سپاہی بھی خود کو اپنے محلے یا گاوں کا بادشاہ سمجھتے ہیں اور اس قانون نے واقعی میں پولیس کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ کچھ بھی رویہ اپنائیں حکومت خاموش رہے گی۔ لہذا پولیس کو محلے کا بدمعاش بنانے کے بجائے پولیس کی جو ڈیوٹی ہے اُسے یقینی بنانے کیلئے کوئی فارمولا تیار کریں ۔ امید کرتے ہیں کہ حکومتی ذمہ داران اس حوالے سے نظر ثانی کرکے عوام کو یہ احساس دلائیں گے کہ یہاں واقعی میں ایک نظام حکومت قائم ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو عوامی امنگوں کے مطابق بروئے کار لانے کی کوشش میں مگن ہیں۔ اللہ ہم سب کو قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے ظلم اور استحصال کے خلاف بولنے لکھنے اور دھرتی ماں کی خدمت کا موقع فراہم کرے آمین
از۔ شیرعلی انجم
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ