سڑکیں اور راستے ہمیشہ سے شاعروں کے دوست رہے ہیں۔ ہمیں اپنے کتنے ہی شاعروں کاکلام اور ان کی سرگذشتوں سے یہ سراغ ملتا ہے کہ وہ اپنے شہر کی سڑکوں کے ساتھ بنی فٹ پاتھوں پر دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے خیالوں میں مگن کسی منزل کی تمنا کے بغیر سفر کرتے رہتے، یہ راہیں ان کی تنہائی کی ساتھی ہوتی ہیں اور خاموشی کے سفر میں ان کی ہم سفر، سڑکوں کے ساتھ ان تخلیق کاروں کے یہ سفر ہمیں نہ جانے کتنے خوب صورت شعر، غزلیں اور نظمیں دے چکے ہیں، ان راستوں کے توسط سے ہمیں نہ جانے کتنی دل پذیر کہانیاں اور افسانے میسر آئے ہیں، لیکن میرے شہر کا شاعر اور ادیب سڑکوں اور راستوں سے یہ رشتہ نہیں بناسکتا، کیوں کہ سڑکوں سے فٹ پاتھوں تک راستوں کہ چپہ چپہ تجاوزات کے قبضے میں ہے۔
کراچی کے اہم ترین تجارتی مراکز صدر، طارق روڈ، حیدری مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ اور اس شاہ راہ پر واقع مارکیٹوں کی فٹ پاتھوں سمیت شہر بھر میں اب راہ گیروں کے سکون اور آرام سے گزرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر اس صورت حال کو پوری طرح واضح کرتی ہے، یہ خبر بتاتی ہے:
’’کراچی میں نئی تجاوزات مافیا پیدا ہوگئی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ اور پولیس کی زیرسرپرستی اہم شاہراہوں، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ باربی کیوریستوراں، ہوٹلز، کے تخت اور کرسیاں، ٹائر اور پنکچر کی دکانیں، گاڑیوں کے ورکشاپس، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے شورومز، دیگر دکانیں اور ٹھیلے اور پتھارے قائم ہوچکے ہیں، جس سے شہر میں بدترین ٹریفک جام ہورہا ہے۔ راہ گیروں کو سخت اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تجاوزات مافیا مبینہ طور پر کروڑوں روپے بھتا سرکاری ملازمین اور افسران کو دے رہی ہے۔ ‘‘
یہ خبر تجاوزات میں اضافے کے ساتھ یہ بھی بتارہی ہے کہ یہ اضافہ کیوں ہوا ہے اور انھیں کیوں نہیں ہٹایا جارہا۔
اس شہر میں رہنے والا اور اس کی سڑکوں پر سفر کرنے والا کون شخص ہوگا جو اس صورت حال سے واقف نہیں اور اس کا شکار نہیں ہوتا۔ کراچی میں ٹریفک جام روز کا معمول ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کا قیمتی وقت اور پیٹرول اور سی این جی کا ضیاع ہوتا ہے۔ آپ کو اگر کہیں جانا ہے تو مقررہ وقت سے کم ازکم ایک گھنٹہ پہلے سفر شروع کیجیے تو شاید اپنی منزل پر بروقت پہنچ پائیں، ورنہ تاخیر آپ کا مقدر ہے۔ کسی طے شدہ پروگرام کے لیے تو آپ یہ کرسکتے ہیں، لیکن کسی ناگہانی کی صورت میں کیا کیا جائے؟ کوئی حادثہ، بیماری، کسی اور ایمرجینسی کی صورت میں ٹریفک جام سے کیسے نمٹا جائے؟ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اس تکلیف دہ صورت حال کی گواہی تقریباً ہر روز ٹریفک کے ازدحام میں پھنسی بے بسی سے ہارن دیتی ایمبولینسز ہیں، جن میں کوئی مریض پڑا تڑپ رہا ہوتا ہے۔ اس ٹریفک جام کا سبب سڑکوں کی ناقص حالت اور بدانتظامی کے ساتھ تجاوزات بھی ہیں، جن میں سڑکوں کے کنارے کھڑی کردی جانے والی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
یہ شہر پہلے بھی تجاوزات کے مسئلے سے دوچار تھا، مگر جب سے باہر کھانے کا رجحان بڑھا ہے اور شہر میں کھانے پینے کے مراکز کی تعداد میں
اضافہ ہوا ہے اسی رفتار سے تجاوزات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اب شہر کی شاید ہی کوئی فٹ پاتھ ہو جہاں کسی ریسٹورینٹ کے تخت اور کرسیاں اور میزیں نہ بچھی ہوں۔ یہی نہیں، ان ریسٹورینٹس میں کھانے کے لیے آنے والے پورے اطمینان سے اپنی گاڑیاں فٹ پاتھ کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑی کردیتے ہیں، جس سے صورت حال مزید سنگین ہوجاتی ہے۔
کراچی میں قدم قدم پر قائم یہ تجاوزات ہمارے بگڑے ہوئے قومی مزاج کی پوری طرح عکاسی کرتی ہیں، جس میں خودغرضی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہمیں صرف اپنے مطلب سے غرض ہوتی ہے چاہے اس کے نتیجے میں کسی کا کچھ بھی نقصان ہو۔ اس خودغرضانہ رویے کی وجہ سے ہم جب بھی ضرورت ہو شامیانے لگا کر سڑکیں اور گلیاں بند کردیتے ہیں، کسی کے لیے مشکل ہو تو ہوا کرے ہماری بلا سے، یہ رویہ ہے جس کے باعث کہیں بھی گاڑی پارک اور موٹرسائیکل کھڑی کرکے لوگوں کا چلنا دشوار کردیا جاتا ہے اور یہی چلن جب کاروباری مقاصد سے جُڑتا ہے تو اور زیادہ خوف ناک اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں دکان دار اپنا سامان بلاتکلف دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر رکھ دیتے ہیں، جس کے بھی دل میں کاروبار کی تمنا جاگتی ہے وہ کسی بھی سڑک کے کنارے اپنی دکان سجالیتا ہے، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر اپنے تصرف میں لے آتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ان تجاوزات کو ہٹایا نہ جاتا ہو۔ بالکل ہٹایا جاتا ہے، بڑی سختی کے ساتھ اور بھرپور ایکشن کرتے ہوئے۔ یہ تجاوزات کی صفائی کے یہ آپریشنز دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بس اب یہ تجاوزات ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئیں اور عوام کو ان سے نجات مل گئی، مگر اکثر اگلی ہی صبح یہ سب اپنی اپنی جگہ پر موجود آپ کا منہہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ صاف ظاہر ہے یہ آپریشن صرف بھتے کی رقم بڑھانے کی کارروائی ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔
جب سرکاری افسران اور ملازمین کو ان تجاوزات سے ہاتھ پیر ہلائے بغیر مجموعی طور پر کروڑوں اور انفرادی حیثیت میں ماہانہ لاکھوں اور ہزاروں روپے حاصل ہورہے ہیں تو وہ ان کا خاتمہ کیوں کریں؟ وہ تو اس دھندے میں پوری طرح شریک ہیں، فیض یاب ہورہے ہیں۔ قانون پر عمل داری کے لیے بنائے گئے اداروں کا مسئلہ تو بس یہ ہے کہ موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی کی صورت میں، جو امن وامان کی واحد ضمانت سمجھی جاتی ہے، اگر کوئی اس پابندی کی خلاف ورزی کرتا نظر آجائے تو اسے فوراً دھرلو، کسی موٹرسائیکل سوار نے ہیلمٹ نہ پہنا ہو تو اسے ڈرا دھمکا کر وصولی کرلو اور کوئی عام شہری اگر روکنے پر کسی وجہ سے نہ رک سکے تو فائر کرکے اسے مارڈالو، لو جی قانون کی حکم رانی قائم ہوگئی۔ تجاوزات جیسی قانون کی کھلی خلاف ورزی سے ان قانون کے رکھوالوں کا کچھ لینا دینا نہیں۔
ادارے کیا کر رہے ہیں، اس سے قطع نظر میرا سوال یہ ہے کہ ہم شہری ہر ظلم ہر زیادتی کو خاموشی سے کیوں برداشت کرتے ہیں۔ اگر شہری اپنے اپنے علاقوں میں قائم تجاوزات کے خلاف پُرامن احتجاج کے لیے نکل آئیں تو صورت حال بدل سکتی ہے۔ چلیے اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ ہم ایسے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کھانا نہ کھائیں جو تجاوزات کی صورت میں قائم ہیں، ایسی دکانوں سے خریداری نہ کریں جو فٹ پاتھوں پر بنی ہیں اور ایسے ورکشاپس وغیرہ سے سہولتیں نہ حاصل کرنیں جو راہ گیروں کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ