ثناء غوری
جو کرنا ہے کرڈالیے۔ محبت کا اظہار کرنا ہو یا نفرت کا۔ کسی کو تعارفی کلمات سے نوازنا ہو یا تنقید کا نشانہ بنانا ہو، اور تنقید تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ اگر آپ کسی کو منہ پر برا بھلا کہیں گے تو عین ممکن ہے کہ بحث مباحثہ سے بات شروع ہو اور نوبت ”آپ سے ”تو“ پر آجائے اور صورت حال مزید سنگین ہوکر گالی گلوچ اور ہاتھاپائی تک جاپہنچے۔ اب آپ کہیں گے کہ حد ہوگئی۔ کوئی بھی مہذب شخص بھلا اپنی رائے دیتے دیتے اتنا نہیں گر سکتا کہ مخالف کو گالیاں دینی اور مارپیٹ شروع کردے۔ تو جناب! سن لیجیے اور یقین نہ آئے تو سرچ انجن گوگل کو حرکت میں لائیے اور دیکھے ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں ترقی یافتہ قوموں اور ان قوموں کے ایوانوں میں بھی جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب ترین قومیں کہتی ہیں، ملک کا انتظام چلانے والے جب اسمبلیوں میں بحث کرنے پر آ جائیں تو کھلے دل سے مخالف کا مدعا سننے کی بجائے وہ ہنگامہ کرتے ہیں کہ ایک عام شہری بھی کیا کرتا ہوگا۔ سو الجھن میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُٹھائیے اپنا انڈرویٹ فون گھر میں لیٹے ہوں یا آفس میں بیٹھے ہوں، بس میں سوار ہوں یا پیدل سفر ہو، کھانے کی میز پر ہوں یا پان کی دکان پر…. سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعہ جو کہنا ہے کہہ ڈالیے۔ کوئی نہیں روکنے والا۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا اور آپ ہوتے کون ہیں اپنے فیصلے سنانے والے یا غیرمہذب زبان استعمال کرنے والے۔ زیادہ الجھن ہو تو اس کا بھی حل موجود ہے۔ پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے اتنے یوزرز یا استعمال کرنے والے نہیں ہیں جتنے فیک اکاونٹ یا ہماری زبان میں ترجمہ کرکے لکھا جائے تو جعلی کھاتے ہیں۔ جی جعلی! اب یہ کیسے ممکن ہے کہ بہت مہذب اعلی تعلیم یافتہ لوگ ایسا کوئی کام کریں گے جس میں لفظ جعلی کا استعمال ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ فیس بک پاکستان کے سروے کے مطابق ایک آئی پی ایڈرس (آئی پی ایڈرس وہ ایڈرس ہوتا ہے جو کہ آپ کو کمپیوٹر کی جگہ کا تعین کرتا ہے کہ کون سا کمپیوٹر کس جگہ کس ملک میں ہے اور وہاں سے ویب سائٹ استعمال کررہا ہے) سے کئی کئی اکاؤنٹ چلائے جا رہے ہیں اور بعض دفعہ تو لوگ بہت ڈھٹائی سے بتاتے ہیں کہ ہماری کم سے کم بھی دس فیک آئی ڈیز ہیں اور ہم ہر آئی ڈی کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کوئی قانون نہیں کہ اس جعل سازی کو روکا جا سکے۔
جی جی… اب آپ کہہ رہے ہوں گے کہ قانون کیسے نہیں، قانون تو ہے جیسے اور ممالک میں سائبر قوانین بنے ہوئے ہیں، ویسے ہمارے ہاں بھی ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے، ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں تو باقاعدہ سائبر پولیس کا ڈیپارٹمنٹ بھی موجود ہے، جو اتنے بڑے ملک میں ہونے والے سائبر کرائمز کے حوالے سے فعال کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی مشرف دور میں بڑا دھواں اٹھا تھا کہ سائبر بل پاس ہوگیا ہے، اب سائبرکرائمز روکے جاسکیں گے۔ کچھ دنوں آئی ٹی منسٹری بھی فعال نظر آئی، لیکن بس وہ سب شاید مختصر عرصے کے لیے تھا۔ اس قانون کا بھی وہی حال ہوا جو پاکستان کہ تقریباً ستر فی صد قوانین کے ساتھ ہوتا ہے، قانون قانون کی حد تک ہی رہا، کہیں کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔ فقط دو چار کیس کے کوئی خاص پیش رفت سامنے نہ آئی۔ اس کا اندازہ اس وقت کو یاد کر کے لگایا جا سکتا ہے جب ہمارے ملک میں الیکشن کی فضا گرم تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے عوام خاص طور پر نوجوانوں کی ذہن سازی کے لیے اپنے اپنے گھوڑے
سوشل میڈیا پر دوڑا دیے۔ سوشل میڈیا سیل کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا، جہاں اپنی الیکشن کی کمپین چلائی گئی وہیں مخالف جماعتوں کے راہنماؤں پر جس حد تک کیچڑ اچھالا جاسکتا تھا فیک آئی ڈیز اور پیجز کے ذریعے اچھالا گیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ کسی نے روکا بھی نہیں۔ کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ یعنی ہماری آئی ٹی منسٹری کے حکام قانون سازی کے بعد تنخواہ لے کر آرام سے سو رہے تھے۔ جو طوفان ِ بدتمیزی اٹھا اسے روکا نہیں گیا، البتہ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج آنے کے بعد الزام تراشی اور بدنامی کے کھیل کو کم کردیا۔
اس سارے منظر کے نتیجے میں عام آدمی کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی ترغیب ملی اور اب یہ حال ہے کہ سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کے لیے سوچ اور آگاہی کے در کھولے، سوچنے کے نئے زاویوں سے روشناس کرایا، عام فرد کی سوچ میں تبدیلی لایا، وہیں یہی سوشل میڈیا کتنوں کی عزتوں کی دھجیاں اڑاتا چلا گیا۔ کتنے ہی لوگ بنا کسی وجہ کے بدنام کیے گیے اور کتنے ہی گھر اجڑ گئے۔ کتنے ہی نوجوان اس سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھ کو خودکشی کر چکے ہیں۔ افسوس، لیکن یہی حقیقت ہے کہ ہماری قوم نے اس میڈیا کا استعمال مثبت کم اور منفی زیادہ کیا ہے۔
اس صورت حال میں ایک ایسے قانون کی ضرورت تھی جو اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھے۔ سو یہ قانون سامنے آگیا ہے۔ پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے ترمیم شدہ سائبر کرائم بل کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد اب اسے دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس قانون پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی اور سال میں دو مرتبہ اس بل پر عمل درآمد کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
بل میں ایسے 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر ضابطہئ فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہو سکیں گی۔ اب کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھجوانے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا جائے گا۔ سیکیوریٹی ایجنسیوں کی مداخلت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ قانون سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔ سینیٹ میں منظور ہونے والے بل کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی جب کہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال قید کی سزا ہوگی۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی، جب کہ بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال اور موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر تین، تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ موبائل فون کی سموں کی غیرقانونی فروخت پر بھی پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
اس بل کے مطابق انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا، جب کہ قانون کا اطلاق صرف پاکستان ہی میں نہیں ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں، جعلی تصاویر اور وڈیوز کے ذریعے نفرت کو فروغ دینے کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور میڈیا کو دیگر منفی سرگرمیوں اور جرائم کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا اب ہماری زندگی میں بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے، چناں چہ اس کے اثرات ہمارے خیالات، سماجی وسیاسی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے اہم اور طاقت ور ذریعہ ابلاغ کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔ سوشل میڈیا پر کوئی فرقے کے نام پر، کوئی زبان اور علاقے اور کوئی مذہب اور لبرل ازم کے نام پر جس طرح نفرت سے بھری غلیظ اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرتا ہے، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ بہ حیثیت پاکستانی ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کریں، چاہے کوئی ہمارے نظریے کی حمایت میں نفرت انگیز زبان استعمال کر رہا ہے اور ایسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے یا ہمارے نظریے کے خلاف، ہمیں اس پر احتجاج کرنا چاہیے۔
بہت سے حلقوں کے اس قانون کے بارے میں بجا طور پر تحفظات ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ ریت رہی ہے کہ یہاں قوانین کو سیاسی مخالفین یا اپنے حقوق کے لیے پُرامن جدوجہد کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا دنیا میں ایک متبادل اور آزاد میڈیا کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انھیں دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں اور گروہوں کی ہے جن کی بات مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے سامنے نہیں آتی، چناں چہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں ظلم، مسائل اور مصائب کا شکار مختلف گروہ، وہ حقائق سامنے لانے والے افراد جو مین اسٹریم میڈیا پر نہیں آسکتے اور دیگر مثبت سرگرمیاں انجام دینے والے شامل ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا سے مین اسٹریم میڈیا کو بھی بہت سا مواد مل جاتا ہے۔ اب اگر ان مثبت سرگرمیوں کو بھی ریاست کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا اور سزا دی جائے تو یہ خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سنگین جرم ہوگا۔ لہٰذا اس قانون کو برتنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ عدالتوں کا بھی کام ہے کہ سائبرکرائم کے ضمن میں آنے والے مقدمات کا پوری احتیاط سے جائزہ لے کر فیصلے کریں۔
اگر اس قانون کے تحت اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف رائے، کسی ایشو پر بات کرنے اور سیاسی، سماجی اور دیگر معاملات پر اظہارِ رائے اور حقائق سامنے لانے جیسی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی اور منافرت پھیلانے سمیت دیگر منفی سرگرمیوں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر کارروائی کی گئی تو یقیناً اس بل کے حوالے سے لوگوں کے تحفظات دور ہوجائیں گے اور صورت حال میں نمایاں طور پر بہتری آئے گی۔