[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/07/19657328_10155351028585340_3735878702987484504_n.jpg” ]وقار احمد ملک [/author]
1880 سے 2017 تک کے دوران، گلگت بلتستان میں گندگی پھیلنے اور جنگلی حیات کے لیے تکلیف دہ ترین سال 2017 رہا۔ اس سے پہلے بھی تھوڑی بہت گندگی “سیزن “میں پھیلتی تھی لیکن گلگت بلتستان کی مقامی تنظیمیں، غیر ملکی سیاح اور سکولوں کے بچے صفائی مہمات تشکیل دے کر صفائی کر دیتے۔ لیکن اس دفعہ یہ سطریں تحریر کرتے وقت تک گلگت بلتستان کے مقامی افراد خود کوڑے اور گندگی کے ڈھیر دیکھ کر سکتے میں ہیں کہ اس سب کی صفائی کیونکر ممکن ہے۔
گلگت بلتستان کی حکومت نے اقدامات اٹھانے شروع کیے ہیں اور ابتدا بابو سر ٹاپ کی صفائی مہم سے شروع کی ہے ۔ اگر گلگت بلتستان حکومت روایتی سوچ کا مظاہرہ کرتی تو بابو سر سے یہ کہہ کر جان چھڑائی جا سکتی تھی کہ یہ حصہ خیبر پختون خواہ کا ہے ، گلگت بلتستان کی حدود تو چلاس کی جانب اترائی سے کچھ پہلے شروع ہوتی ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں گندگی کا ذمہ دار کون ہے؟
1۔ کیا اس گندگی کے ذمہ دار مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے ہیں؟
اس حوالے سےتارڑ صاحب سے ایک دو مواقع پر گفتگو بھی ہوئی جس میں انہوں نے پشیمانی کا اظہار کیا کہ نہ فیری میڈوز پر لکھتا نہ آج وہ علاقہ برباد ہوتا۔ میں نے ادب سے عرض کیا کہ اس گندگی اور بربادی کے ذمہ دار آپ کے سفر نامے ہر گز نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے اس وسیع سطح پر ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کا رواج ہی نہیں ہے اور جو لوگ کتابیں پڑھنے اور بالخصوص آپ کے ادبی طرز کے سفرنامے پڑھتے ہیں ان میں اخلاقی تربیت اور فطرت کا احترام کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں آپ کے سیکڑوں قارئین سے ملاقات رہی ، آج تک کسی ایک قاری سے ملاقات کے بعد مایوسی نہیں ہوئی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا آپ نے آج تک کسی ایک سفرنامے میں گندگی پھیلانے کی ترغیب دی ہے ؟ یااس حوالے سے کوئی ایک بھی کمزور جملہ لکھا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر احساس جرم میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔
2۔ کیا اس گندگی کے ذمہ دار فوٹو گرافر حضرات ہیں؟
پاکستان کے گلگت بلتستان کو جس قدر خوبصورت فوٹو گرافرز نے دکھایا ہے اس کا مین سٹریم میڈیا کسی صورت مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی فوٹو گرافر نے گلگت بلتستان میں گندگی یا گندگی پھیلانے کو جمالیاتی عمل دکھایا ہے ۔ پاکستان اور غیر ملکی فوٹو گرافرنے تو اس خطے کے فطری حسن کو اجاگر کیا ہے اور اگر کسی کے فریم میں ایک شاپنگ بیگ بھی آیا تو اس نے شاپنگ بیگ اٹھا کر اپنے فریم اور کمپوزیشن کی صفائی کی۔ فوٹو گرافرز کو ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
3۔ کیا اس گندگی کا ذمہ دار سفر ہے شرط پروگرام تھا؟
2011 میں جب سیاحت کی صنعت ناکام تھی اور گلگت بلتستان کے افراد جیپیں اور سیاحت سے متعلقہ سامان بیچ کر کراچی اور لاہور میں روزگار تلاش کر رہے تھے ایسے وقت میں سفر ہے شرط پروگرام چلا۔ دیکھا بھی گیا۔ اور لوگ پروگرام کو دیکھ کر گئے بھی۔ پہلے سال ہی ہزاروں موٹرسائیکل سواروں کا قراقرم ہائی وے کا رخ کرنا مثبت سرگرمی تھی۔ بجائے اس کے ، کہ شہروں میں ون ویلنگ کرتے ۔۔اپنی توانائی کو قراقرم ہائی وے پر خرچ کرنے نکل پڑے ۔ لیکن جو جم غفیر گذشتہ دو سالوں میں وہاں گیا اس کا پروگرام سے تعلق نہیں تھا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا تھا تو گلگت بلتستان جانے والے اس جم غفیر کو ملیے اور مختلف لوگوں سے پوچھیے کہ انہوں نے سفر ہے شرط پروگرام دیکھ کر قصد سفر کیا؟ ۔۔جوابات سے آپ کی تسلی ہو جائے گی ۔ سفر ہے شرط پروگرام میں گلگت بلتستان کے پرانے گیتوں، محاوروں، کہاوتوں ، کہانیوں اور علاقے کی شماریات و جمالیات کو موضوع بنایا گیا اور مختلف اقساط میں صفائی کی تلقین اور ذمہ دار رویے پر زور دیا گیا۔
4۔ تو پھر گلگت بلتستان میں گندگی پھیلانے کا ذمہ دار کون؟
اس کا جواب کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ذاتی رائے یہ ہے (جس سے آپ کو مکمل اختلاف کا حق ہے) کہ گلگت بلتستان پر “حملہ آوور سیاحوں” کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کی تین وجوہات ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں۔
1۔ بابو سر ٹاپ ۔۔2۔ سوشل میڈیا۔۔3۔ قراقرم ہائی وے اپ گریڈیشن
ایک دور ایسا تھا کہ بابو سر ٹاپ کچھ عرصے کے لیے کھلتا تھا ۔ جب کھلتا بھی تھا تو چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کے لیے موزوں نہیں ہوتا تھا۔ پھر ایف ڈبلیو او نے بہترین سڑک بنائی اور بہترین مشینوں سے بابو سر کو کھلا رکھنے کا کام بہتر انداز سے سر انجام دینا شروع کیا۔ ابتدا میں لاکھوں لوگوں کی منزل ناران ہوتی تھی بالخصوص سوات آپریشن کی وجہ سے سارا رجحان ناران کی جانب منتقل ہوا۔ ناران سے آگے متجسس لوگ بابو سر پہنچے ۔۔پوچھا آگے کیا ہے؟ جواب ملا بہترین سڑک ہے کچھ آگے گلگت اور ہنزہ ہے ۔۔ہنزہ اوہ یہ نام تو بہت سنا ہے ۔۔چلو چلتے ہیں۔ تو ہوا یہ کہ بابو سر کی وجہ سے راستہ مختصر اور آرام دہ ہو گیا۔ کہاں کوہستان کی گھمن گھیریاں اور کہاں ناران کی سرسبز و شاداب وادی سے اچانک گلگت بلتستان میں داخل ہو جانا۔۔
دوسری بڑی ذمہ سوشل میڈیا پر آتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان چھایا رہا۔ معلومات ملیں ۔ فاصلوں کا علم ہوا۔ اجنبیت کم ہوئی ۔ اور تیسری بڑی ذمہ داری قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن رہی ۔
اب بتائیے ۔۔۔کیا ان حملہ آوور سیاحوں کی وجہ سے ۔۔مستنصر حسین تارڑ سفرنامے نہ لکھتے۔۔فوٹو گرافرز دنیا میں پاکستان کی خوبصورت شناخت کو نہ پہنچاتے۔۔سفر ہے شرط میں گلگت بلتستان کے تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی عجائب کو نہ دکھایا جاتا۔۔بابو سر ٹاپ کے راستے کو آرام دہ نہ بنایا جاتا۔۔سوشل میڈیا پر پاکستان کی مثبت باتیں نہ بیان کی جاتیں۔ ۔۔اور قراقرم ہائی کو اپ گریڈ نہ کیا جاتا۔۔
اس رفتار سے آپ گئے تو کہہ سکتے ہیں ان سب کے پس پردہ ۔۔موبائل اور ٹیلی ویژن ہیں۔۔اس لیے ان ایجادات کو ہی سر ے سے نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اقوام میں ترقی کا چلن اس طرح نہیں ہوتا۔ حل نکالے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس معاملے میں بہت واضح ہونا چاہئے کہ ۔۔
کوڑا پھیکنا۔۔جرم ہے، ماحول کو خراب کرنا غلط ہے ۔۔زیادہ سے زیادہ توانائیاں ایسی کوششوں پر صرف کی جائیں جس سے صفائی کی ترغیب ہو اور کوڑا پھینکنے والے کو نفرت کا سامنا کرنا پڑے۔ جب ہم ان جرائم کا ذمہ دار ، مختلف لوگوں اداروں اور اقدامات کو دینا شروع کر دیتے ہیں تو شاید ہم اس ہیبت ناک حقیقت سے پیچھا چھڑا کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار چاہتے ہیں۔
جس دن ہماری درسی کتب میں ، دنیا میں ہمارا عارضی قیام، قوم کی معصومیت اور اس کے آسمانی اوتار ہونے کے سبق کم ہوں گے اور خنجراب و دیگر علاقوں کی اہمیت کے سبق زیادہ ہوں گے تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی۔۔کوڑا پھیلانے کی اہم نفسیاتی وجوہات ہیں۔ یہ عادتیں اس قدر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہیں کہ نکالنا مشکل ہے۔ صدیوں کی تربیت کا عمل دخل ہے ۔ کبھی 16 ویں اور 17 ویں صدی میں آنے والے غیر ملکیوں کے خیالات پڑھیے جو انہوں نے برصغیر کے حوالے سے لکھے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ آپ جب گلگت بلتستان میں بیٹھےکسی دوست سے گندگی پھیلانے کے حوالے سے بات کر رہے ہوتے ہیں اور وہ بھی گندگی پھیلانے والوں کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے پھر جب آپ جانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ دوست جوس کے ڈبے کا آخری سپ لے کر ڈبہ ایسے ہی پھینک دیتا ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ان عادتوں کے پیچھے نفسیاتی وجوہات ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو گلگت بلتستان میں تمام گندگی پھیلانے والوں سے انفرادی طور ملیے ۔۔۔وہ سب وسیع القلبی سے گندگی پھیلانے والوں کوگالیاں دیں گے۔
‘ہم سب’