ہنزہ نیوز اردو

نگر ضمنی انتخابات ، اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔۔۔؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر : محمد شریف رحیم آبادیؔ
مبشر حسن کے گھر لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ زوالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے روح رواں تھے جو ایک زیر ک اور دور اندیش رہنما تھے ، صدر ایوب ان سے متاثر تھے اس لیے انہیں وزیر خارجہ کا قلمدان سونپ دیاتھا ۔ پیپلز پارٹی کے وجو د میں آنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں بھی اس پارٹی کی سرگرمیاں عروج پر تھیں ۔ پارٹی کی قیادت نوجوان لیڈر کر رہے تھے جنکی اکثریت فارغ التحصیل طلبہ کی تھی ۔ بعد اذاں دوسری پارٹیاں بھی ابتدا سے یہاں سرگرم رہیں ۔ ضیاء دور میں مسلم لیگ فعال نظر آئی ، مشرف دور میں مسلم لیگ”ق” کا چرچا رہا ، بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق پاکستان تحریک انصاف سال 2015 ؁ئکے الیکشن میں دبنگ انٹری دی ۔ گرچہ یہ نوزائیدہ جماعت کے طور پر اُبھری تاہم اس کی منشور سے متاثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو ق در جوق اس پارٹی کو جوائن کرنے لگے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ میثاق جمہوریت کے بوجھ تلے دبے ہوئے کمزور اپوزیشن پی پی پی کی وجہ سے عوام تحریک انصاف کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگی ہے اور عمران خان اسکی اُمید۔ گلگت بلتستا ن میں تنظیم سازی کا عمل زور و شور سے جاری ہے ۔ صدر راجہ جلال ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کی ٹیم میں فتح اللہ خان ، جنرل سکریٹری شاہ ناصر ، سینئر نائب صدر تقی اخونزادہ ، سکریٹری اطلاعات جی بی اس پر کام کر رہے ہیں ۔ جنرل سکریٹری گلگت ڈویژن کا فعال کردار اور اس کی کاوشوں سے نامور لوگ پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں اور کچھ لوگ رابطے میں ہیں ۔ مگر GBLA-04 سے مشہور سیاسی شخصیت شیخ اختر اس پارٹی میں شامل ہونے کے ساتھ ہی PTI کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔مذکورہ اعلان پیپلز پارٹی اور تحریک اسلامی کے لیے معمولی خبر نہ تھی موصوف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخصیت ہیں ۔ تحریک جعفریہ اور تحریک اسلامی میں شیخ حیدر مرحوم کے دست راست مانے جاتے تھے ۔ ایک دفعہ ان کے Covering Candidate بھی رہے ہیں ۔ سوشل ورک میں بھی ان کو ایک منفر د مقام حاصل ہے ۔ اس حلقے سے محمد علی اختر پاکستان پیپلز پارٹی اورشیخ حیدر مرحوم تحریک کے پلیٹ فارم سے جیت چکے ہیں ۔ شیخ حیدر کے فرزند محمد علی شیخ مرحوم کے وفات کے سے خالی ہونے والی نشست پر انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ تحریک اسلامی اور پیپلز پارٹی میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا رہا ہے ۔ جن میں پیپلز پارٹی کو شین برادری کی اور تحریک کو یشکن قبائل کی حمایت حاصل رہی ہے ۔ شیخ اختر کا تعلق بھی اسی قبیلے (یشکن )سے ہے جو کہ اس کاووٹ بنک اپنے حق میں لاسکتا ہے ۔ چھپروٹ گاؤں سے پیپلز پارٹی ہمیشہ سے لیڈ کرتی آرہی ہے ۔ شیخ اختر کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے ۔ ہوم گراؤنڈ کا فائدہ اُنہیں حاصل رہے گا اور پی پی پی کے ووٹ بنک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا احتمال ہے ۔ چھپروٹ سے ان کی کامیاب ریلی نے دیگر دو پارٹیوں کو ششدر کرکے رکھ دیا ہے اور یہ ان کے لیے Alarming Situation ہے ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا تحریک اسلامی کی حمایت میں مسلم لیگ ” ن” سے اُمیدوار کھڑا نہ کرنا تحریک اسلامی کو معمولی فائدہ دے سکتا ہے ۔ اس سے اس پارٹی کو کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔ البتہ گورنمنٹ مشنیری کا سپورٹ اُنہیں حاصل رہے گا ۔ شین بر سے اب تک کوئی عوامی نمائندہ این اے لیول کا الیکشن کنٹسٹ نہیں کرچکا ہے ۔ شیخ اختر وہ پہلے شخص ہیں جو اس حلقے سے الیکشن لڑنے جا رہے ہیں ۔ ان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے مذکورہ علاقے کے نوجوانوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا ہے ۔تحریک انصاف کے نغمے متعلقہ ایریا کے ہر گھر سے سنائی دے رہی ہیں ۔ شاہراہ ریشم سے متصل تمام گاؤں کا ووٹ بنک تقسیم ہوچکا ہے ۔ ان علاقوں کے بارے میں پیش گوئی قبل از وقت دکھائی دے رہا ہے ۔ تینوں اُمیدوار ایک دوسرے کا ووٹ کاٹنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ تاہم تحریک اسلامی اور پیپلز پارٹی کی سابق کارکردگی رزلٹ پر انداز ہوسکتی ہے ۔دونوں پارٹیوں کے ترقیاتی کام گراونڈ پر موجودہیں جنہیں وہ کیش کرواسکتی ہیں ۔ تحریک انصاف کے پریس کانفرنس کے دوران راقم بھی پریس کلب میں موجود تھا ۔ شیخ اختر نے پارٹی میں شامل ہونے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کے دلیرانہ قیادت اور انصاف پر مبنی فیصلوں کی بدولت اس پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف مضبوط آواز بن گئے ہیں۔اس لیے اس نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا لہجہ انتہائی شستہ اور متاثر کن تھا ۔ اُنہوں نے سوالات کے Relevent جوابات دیے۔ تمام حالات و واقعات شیخ اختر کے حق میں نظر آرہے ہیں ۔اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اورحتمی فیصلہ کرنا قبل ا ز وقت ہوگا ۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

وقت سے پہلے بے ذوق ذمہ داریاں

زندگی کے مختلف ادوار میں ہمارے سامنے طرح طرح کی ذمہ داریاں آتی ہیں، اور یہ ذمہ داریاں کسی حد تک ہماری شخصیت کی تعمیر