انسانی نفسیات کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد اس بات کی گواہی دیں گے کہ بطور انسان آپ جس بھی فیلڈ میں انوسٹمنٹ کرتے ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں لوگ اپنے بچوں کو ملک اور ملک سے باہر کے مشہور علمی درسگاہوں میں صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ مالی فوائد جائز اور ناجائز طریقے سے حاصل کرسکیں۔ ایسے معاشرے میں آپ چند سیاسی گھرانوں سے یہ توقع کیوں رکھ رہے ہیں کہ وہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے۔؟چلئے چھوڑیں یہ فضول کی باتیں آج آپ سب کو کچھ کہانیاں سناتے ہیں۔
ایک سیاسی قوت جو گزشتہ 35 سال سے اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں نہ کہیں ہمیشہ موجودرہتا ہے۔ اس قوت کا کارنامہ تاریخ یہ بتاتا ہے کہ وہ برصغیر کے جذباتی لوگوں کی نفسیات کو سمجھ گیا تھا۔ کمال دیکھئے، ہم عوام ایسے جذباتی اور ناسمجھ ہیں کہ ایک شخص اسٹیج پر کھڑے ہو کر پوچھتا ہے۔ ’’ مرو گے‘‘ نیچے مٹی پر چوپائیوں کی طرح بیٹھے ہوئے لوگ چیخ اٹھتے ہیں ’’مریں گے‘‘۔ کس لئے مریں گے یہ کسی کو نہیں پتا۔ اس وقت تو ہم اس بات پر مضر تھے کہ ہم ایک نظریے کے لئے مرنے کو تیار ہیں۔ آج 35 سال بعد پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اقتدار کی غلام گردشوں میں ان کی تیسری نسل جوان ہوچکی ہے۔ عوام کی بھی تیسری نسل جوان ہے۔ وہ اس وقت کروڑوں میں کھیل رہے تھے۔ ان کی نسل کھربوں میں کھیل رہی ہے۔اگر کوئی چیز اب بھی باقی ہے تو صرف نظریہ۔ وہ بھوک جس کے خاتمے کے لئے ہم مرنے کو تیار تھے وہ اسی طرح برقرار ہے۔ وہ ننگ پن جس سے ہم بچنا چاہتے تھے۔ وہ ہزار گنا بڑھ چکا ہے۔ وہ خانہ ویرانی جس سے بچنے کے لئے ہم لڑنے کو تیار تھے۔ وہ عوام کی دسترس سے کروڑوں کلومیٹر دور جاچکا ہے۔ وہ آج بھی ہم سے پوچھتے ہیں۔ ’’ مرو گے، لڑو گے‘‘۔ ہم بے دھڑک بول دیتے ہیں۔ ’’ مریں گے‘‘۔ اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مرو۔ کس نے منع کیا ہے۔
دوسری سیاسی قوت نے کئی دہائیوں تک ضیاء الحق کو شہید اس لئے قرار دیتا رہا کہ اس سے ان کے ذاتی مفادات اور مالی فوائد میں اضافہ ہورہا تھا۔ انہی ذاتی فوائد کے چکر میں انہوں نے ضیاء الحق کے مشن کو آگے لے جانے کے لئے جان کی بازی لگانے کا وعدہ کیا۔ ہم غریب عوام نے ان کے اس وعدے پر بھروسہ کیا کہ وہ جنرل ضیاء الحق شہید کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ جناب وہ مشن کیا ہے۔ تین دہائیاں گزرنے کے بعد اب وہ خود کہہ رہے کہ ضیاء الحق شہید نہیں ہے۔ بیچ میں سے ’’مشن‘‘ کہیں غائب ہوگیا ہے۔ ان سے کوئی یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ ہم آپ کی کس بات پر یقین کریں۔ آپ کے خلاف یا حمایت میں جو بھی فیصلے ہوئے ہیں ان کو ایک سائیڈ پر رکھ کر پہلے آپ یہ بتائیں کہ جنرل ضیاء الحق کا مشن کیا تھا۔ کیا آپ نے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کہیں ذاتی تجوریاں بھرنے کو آپ ان کا مشن تو نہیں سمجھتے۔یہاں پھر وہی بات آجاتی ہے کہ عام آدمی ایسے سوالات کرے گا تواس سے جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے اور ہمارے صاحب اقتدار ’’عوامی‘‘ نمائندے کم از کم کوئی ایسی بات برداشت نہیں کرسکتے جس سے جمہوریت یا جمہوریت پر کئے گئے انوسٹمنٹ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ آج کل یہی سیاسی قوت اپنے پرانے محسنوں کو بھلا کر ایک بچے کو اپنی رعونت تلے کچل ڈالنے کے بعد کہہ رہی ہے کہ یہ بچہ شہید جمہوریت ہے۔کسی نے اس بچے کی ماں سے بھی پوچھا ہے کہ کچلے گئے بدن کے ٹوٹے ہوئے اعضا کو اس نے کس طرح سمیٹا تھا۔
تیسری قوت میڈیا سے وابستہ افراد ہیں۔ پتہ نہیں کیوں آج کل عام آدمی ان کو فرشتہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کی تجوریاں بھی خالی پڑی ہیں۔وہ بھی کاروبار میں پیسہ لگا چکے ہیں جو زیادہ قیمت لگائے گا اسی کی بولی بولیں گے۔انسانی تاریخ میں یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوا کہ ایک ہی وقت میں ایک آدمی ایک ٹی وی چینل پر صادق و امین ہے جبکہ دوسرے ٹی وی چینل پر وہی آدمی دنیا کا سب سے کرپٹ ترین فرد۔ یہ سب سے تکلیف دہ ہے کہ عام آدمی جس طبقے کو اپنا مسیحا سمجھتا ہے وہ بھی اپنے مفادات کی ڈھولکی بجاتا ہے۔ ہاں ان میں چند گنے چنے افراد ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ذاتی مفادات کے بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دیں۔ مگر ان کی آواز وہی نقار خانے میں طوطی کی بولی کے مصداق ہے۔ جو کوئی سننا چاہئے بھی تو سنائی نہیں دیتا۔
ان سب مشاہدات کے بعد ہم پھر بھی پرامید ہیں کہ عام آدمی ملک اور ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اور یہی ہماری سب سے بڑی بے وقوفی ہے، سب سے بڑی خوش فہمی ہے۔ ہم شعور کی منزلوں سے صدیوں کی مسافت کے فاصلے پر ہیں۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے پر زندہ انسانوں کا حق ہے یا مردوں کا۔ ہم کرپٹ لوگوں کو عوامی عہدوں سے ہٹانے کے لئے جتنے بے چین ہوجایا کرتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ انہی کرپٹ افراد کو واپس اقتدار سونپنے کی بے چینی ہوتی ہے۔ کیا ایسے دوغلے لوگ کچھ بدل سکتے ہیں؟۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ