ہنزہ نیوز اردو

اصل غلامی تو اُس وقت ہوگی | یوسف علی ناشاد

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تاریخ عالم میں قوموں کی عروج و زوال کی داستانیں بھری پڑی ہیں جس میں عروج حاصل کرنے والی اقوام کی ذہنی بلندی اورزوال پزیزاقوام کی ذہنی پسماندگی کا ذکر بدرجہ اتم موجود ہے۔ جبکہ یہ تاریخی کتب ہر کتب خانے میں دستیاب ہیں مگر یہ کتب محض الماری کی زینت کے لئے محفوظ رکھی گئ ہیں۔ جس طرح خدا نے کلام پاک میں اُن اقوام کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ باغی ہونے کی بناء پر عذاب کا مرتکب ہوئے اورتمہارے لئے یہ خبر باعث عبرت ہے تاکہ تم عذاب سے نجات حاصل کر سکو۔ اسی طرح تاریخ میں مورخین نے انتھک محنت کے بعد جو کچھ قرطاس پہ اُتارا ہے وہ بھی ہمارے لئے م‍‍‍‍‍‍شعل راہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ہمارے دلوں پہ قفل اور آنکھوں پہ پٹی بندھی ہو توکوئی چارہ کار نہیں ہے جو خود اپنی ذاتی مفاد کی خاطر پوری قوم کو لے ڈوبیں یہ بڑی بدبختی ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان رو س کوٹکڑے کرنے والی طاقت کا شانہ بشانہ کھڑا تھا جس کا خمیازہ یہ ملک بری طرح بھگت چکا ہے اور اس کے منفی اثرات اب بھی عوام کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہے ہیں اور امریکہ کو دنیا بھر میں غنڈہ گردی کرنے کا موقع فراہم کرنے کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر پہ سجتا ہے جو ڈالروں کی برسات میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے۔ کسی کو ڈالروں کے ساتھ ساتھ امیرالمومینین بننے کا خواب بھی نظر آئے تو کوئی سکے پراپنی تصویر چھپوانے کا خواب دیکھتا رہا۔

یہ بھیی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کل جو کانٹے ہمارے پیروں میں چبھ رہے ہیں اس کی آبیاری بھی ہم نے خود کی تھی۔ اپنے بنائے اور سدھائے ہوئے لوگوں کی طاقت کے سامنے جھک کر ان سے مذکرات کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ چلو یہ تو ماضی کی ایک بڑی غلطی تھی مگران دنوں ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر کسی سازش کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ پراکسی وار میں حصہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے بدلے میں ڈالر کے بجائے ریال کی بارش ہے۔ جبکہ تیز بارش کے دوران سیلاب کے خطرے کا قوی امکان موجود ہوتا ہے اور سیلاب کے راستے میں جو بھی آئے اس کی قسمت میں ڈوبنا ہی ہوتا ہے۔ 14اگست1947ء میں آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پوری قوم مشکلات میں پھنستی جارہی ہے۔ چند افراد اپنی مفادات کی خاطر کسی طاقت سے ہاتھ ملاتے ہیں تو اس کی اپنی ذات میں خوشحالی ضرور آجاتی ہے مگر پوری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہتی ہے۔ اس کی واضع مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ آج پاکستان کا ہر بچہ بلکہ پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہے۔

اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم گلگت بلتستان کی سیاست پر ایک نظر ڈالنا چاہیں گے۔ گلگت بلتستان میں تمام وفاقی پارٹیوں کی شاخ اور جیالے موجود ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی پارٹی پر فِدا ہے خواہ اسے کچھ ملے یا نہ ملے جبکہ ہر پارٹی کے سرکردہ حضرات کسی نہ کسی شکل میں مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ نظریہ ضرورت کے تحت وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں لیکن عام سیاسی کارکنوں میں یہ روش نہیں پایا جاتا جبکہ کئی سیاسی رہنما کتنی ایک سے زیادہ بار پارٹیاں بدلتے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان کی ترقی میں A K R S P کے کردار کو علٰحیدہ کیا جائے تو سرکار کے ترقیاتی کاموں کا اصل نقشہ نمایاں ہوجائےگا کہ ان 69 سالوں میں ترقی کا مینارہ کتنا بلند ہوا ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کی ایک اہمیت ہے کیونکہ وہ آئین کا حصہ ہیں وہ جس پارٹی کا گن گائیں انہیں زیب دیتا ہے بہ نسبت گلگت بلتستان کے۔۔۔ اب اتک رزلٹ تو یہ نظر آیا ہے کہ یہاں جدوجہد پارٹی کی حد تک ہوئی ہے عوامی مسائل پر توجہ ہی نہیں دیتا۔ گلگت بلتستان پر جیسا بھی وقت آئے ہمارے سیاست دان ہمیشہ وفاق کی طرف دیکھتے ہیں اور وفاق کے گن گاتے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلے میں اگرصوبہ سندھ پر وفاق کی جانب سے زیادتی ہے یا سندھ کی مفادات پر آنچ آنے کا خطرہ ہو تو سندھ کے سارے سیاسی لیڈرخواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو سب مل کر سندھ کی مفاد کی بات کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی مفادات کی بات ہو، پنجاب کی بات ہو یا صوبہ خیبر پختون خواہ کی بات ہو وہ اپنے اپنے صوبے کی اہمیت کو بیان کرنے اور حقوق کے حصول پر وفاق کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتے ہیں۔ہمارا مشترکہ قومی حقوق کے حوالے سے جدوجہد میں وفاقی پارٹیوں کا کوئی جاندار کردار نہیں رہا ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں آزادی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں کسی بھی ملک یا علاقے میں ایسی تحریکوں کا وجود اُس وقت ہوتا ہے جب ان کے حقوق غضب کئے جاتے ہوں انہیں وہ حقوق نہیں مل رہے ہوں جن کا وہ حق رکھتے ہیں۔ جبکہ مختلف ممالک نے جو آزادی حاصل کی ہے ان پر عوام کا بھر پور اعتماد تھا اور ایران کی مثال لے لیں کس طرح کتنی قربانیوں کے بعد وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آزادی کے حصول سے قبل قوم کو اس پرآمدہ کیا جاتا ہے اور اپنی حکمت عملی سے عوامی مسائل کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور برا وقت آنے کی صورت میں ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ساتھ اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا لازمی ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کیلئے عوامی سطح کے لوازمات پورے کرنے کی صلاحیت ان کے پاس موجود ہو۔ مانا کہ عوام سب مل کراُٹھ کھڑے ہوں توکامیابی ان کے قریب ہوتی ہے مگر قربانی دینے کے بعد۔ اگر عوام کا جھکاؤ کسی اور جانب ہو آزادی کے متوالوں کا جھکاؤ کسی اور طرف ہو تو وہاں وزیرستا ن بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔اپنی دھرتی پر اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے میں کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اگرعوام کو منوانے میں کوئی کامیاب رہتا ہے تو اُس کا حق ہے۔ خدا نخواستہ اگر اپنے مسائل کا رونا دھونا اور اپنے عزائم جسے قومی حقوق کا نام دے کر ہم اغیار کی تلوے چاٹنے لگ جائیں تو ہم سے بڑا مجرم کوئی نہیں ہوگا خدا نہ کرے ایسا ہو جائے۔ ہم18کروڑکے ساتھ اپنی شناخت کو تلاش کرنے میں پریشان ہیں اگر ہم سوا ارب کے کسی سمندر میں گر جائیں تو ہماری حالت اچھوت اور شودر سے کم نہیں ہوگی۔ ہم نے جو کچھ بھی کرنا اسی سرزمین کے اندر اپنے لوگوں کے ساتھ اکثریتی رائے کو مد نظر رکھ کر جددوجہد کرنی ہے۔ کسی بھی طاقت کے بل بوتے پر انحصار کرنے کی سوچ پیدا ہوجائے تو جان لو کہ اصل غلامی تو اس وقت شروع ہوگی۔ اگر ہم اپنی سر زمین سے دور رہ کر اغیار کے ہاتھوں کا کھلونہ بن گئے تو نہ قوم معاف کریگی اور نہ خدا معاف کرے گا۔

 

مزید دریافت کریں۔