جوں جوں انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور امیدواروں کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی ہیں، آمدہ انتخابات گزشتہ انتخابات سے بہت حوالوں سے مختلف دکھائی دے رہے ہیں جس میں یہ بات سر فہرست ہے کہ ان انتخابات میں امیدواروں سے زیادہ ووٹرز پریشان ہیں کہ وووٹ کس کودیں،کیونکہ گزشتہ انتخابات میں کھوکھلے نعروں پر اعتبار کرکے جن امیدوں کے ساتھ ووٹ دیا تھا ان امیدوں پر پانی پھر چکاہے جبکہ اس مرتبہ امیدواروں میں چچا ، بھتیجا، کزن دوست ، رشتہ دار سب کھڑے ہیں ایک کو ووٹ دیں تو دوسرا نا راض نہ دیںتو بھی ناراض، اس دفعہ میرٹ پر ووٹ دینا اور رشتے برقرار رکھنا مشکل ہو کر رہ گیا ہے،بہر حال ووٹ ضمیر کی آواز ہے ووٹ میرٹ پر دیں اس لئے نہ دیں کہ فلاح میرا رشتہ دار ہے یہ یا فلاں میرے مسلک یا برادری کا ہے،اگر آپکا دشمن بھی میرٹ پر ووٹ کے قابل ہے تو اس کو ووٹ دیں ۔
ہنزہ گلگت بلتستان کا اہم حلقہ ہے اور گلگت بلتستان کے تمام حلقوں سے ووٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کے باﺅجود اسمبلی میں ایک ہی نشست ہے اور ہنزہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہاں سب سے زیادہ امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔ ہنزہ کی موجودہ صورتحال یا آمدہ الیکشن پر کسی بھی قسم کے تجزیے یا تبصرے سے قبل ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ضروری ہے، ماضی کو سامنے رکھ تجزیہ کرنے کی صورت میں ہنزہ کی سیاسی محرومیاں اور ان محرومیوں کے ذمہ دار بھی سامنے آئیں گے ۔ ہنزہ کی بد قسمتی یاہنزہ کے عوام کی نادانی سمجھئے کہ ہنزہ کے عوام نے ہمیشہ ایسے امیدواروں کو دل کھول کر ووٹ دیا ہے جودر اصل ہنزہ کے ساتھ مخلص ہی نہیں تھے، ویسے تو ایک سے بڑھ کر ایک امیدواراب بھی ہنزہ کے ساتھ مخلص ہونے اور ہنزہ کا درد محسوس کرنے کا دعویٰ تو کر رہا ہے لےکن عملاً ایسا نہیںکیوں کہ اس کا عملی مظاہرہ ماضی میں دیکھا گیا ہے اور ماضی میں ایسے افراد جو الیکشن کے سیزن میں ہنزہ سے الیکشن لڑتے رہے جیتنے یا ہارنے کی صورت میں ہنزہ میں بیٹھ کر عوام کی نمائندگی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کیوں کہ ان کے مفادات ہنزہ کے ساتھ نہیں تھے ،کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن کا اٹھنا بیٹھنا ہنز ہ میں نہ ہو ، جن کی فیملی ہنزہ سے باہر یا ملک سے ہی باہررہ رہی ہواور ہنزہ میں صحت تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی سے ان کی فیملیز متاثر نہ ہوتی ہوں اور و ہ خود بھی بیشتر زندگی ہنزہ سے باہر گزارتے ہوں ان کو ہنزہ میں بجلی کی اعصاب شکن لوڈ شیڈنگ سے کیا نقصان ہوگا وہ تو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک آدھ مہینے کے لئے ہنز ہ آبھی جاتے ہیں توایسے تیسے وہ کٹھن دن گزار ہی لیتے ہو ں گے۔ ہنزہ میں خراب تعلیمی نظام بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ ان کے بچے تو ملک کے بڑے شہروں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یا بیرون ملک مقیم ہیں، ہنزہ میں فرسٹ ایڈ کی سہولت بھی میسر نہ ہو تو بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ انہوں نے کہاں سرکاری ہسپتال سے علاج کرانا ہے،یہ ایک فطری عمل ہے کہ کسی جگہے میں آپکا فائدہ یا نقصان نہ ہو اس جگہے کے ساتھ آپکی دلچسپی کم ہوتی ہے اور آج تک ہنزہ کے عوام اس لئے تختہ مشق بن گئے کہ انہوں نے ہمیشہ کرائے کے مکان میں بیٹھ کر الیکشن لڑنے والوں پر بھروسہ کیا۔
مجھے یقین ہے کہ حلقہ 6کے بیشتر امیدوار میری ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے کیوں کہ بیشتر امیدوار یا تو نووارد ہیں یا کسی مخصوص منصوبہ بندی کے تحت ہنزہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں، میں خواتین کی قدر کرتے ہوئے ہنزہ سے الیکشن میں حصہ لینے والی واحد خاتون جے یو آئی کی امیدوار مہناز ولی کے علاوہ تمام ان امیدواروں سے سوال کرنے میں حق بجانب ہوں جو آج خود کو ہنزہ کے ہمدرد سمجھ کر ہنزہ کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے اور ووٹ لینے آئے ہیں وہ ذرا یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں کہ ڈھائی سالوں سے اسمبلی میں ہنزہ کی نمائندگی نہیں تھی تب آپ کہاں تھے ؟ آپ ذرا یہ بتا دیں کہ حسن آباد نالے میں ششپر گلیشئر کے پھٹنے سے حسن آباد میں زمینی کٹاﺅ جبکہ علی آباد کو پانی اور ہنزہ کو بجلی کی بندش پر آپ سب کس شہر میں زندگی انجوائے کر رہے تھے ؟ آپ ذرا یہ بھی بتا دیں کہ ہنزہ میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ میں عوام کی چیخیں کسی نے سنی اور اگر کسی نے سنی تو آپ نے کیا کیا؟ آج ہنزہ کے عوام کے ہمدرد بن کر جلسے کرنے ،جلسوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے والے بتادیں کہ اقتدار کی بھوک آپکو تو لے آئی لیکن کرونا کے بد ترین لاک ڈاﺅن میں ہنزہ میں ایک بھی سپیشلسٹ ڈاکٹر تعینات نہیں تھا اور مریض ایڑھیاں رگڑ رہے تھے توآپ حضرات کہاں تھے ؟ اورآپ میں سے کتنے امیدوار ایسے ہیں جو اس بد ترین صورتحال میں عوام کی حال پرسی کرنے آئے اور ہنزہ میں سپیشلسٹ ڈاکٹر سمیت صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج یا کسی اور موثر طریقے سے آواز بلند کی ۔مجھے یقین ہے کہ ان میں بیشتر امیدواروں کو آج بھی ہنزہ کے دور دراز کے گاﺅں کے نام بھی یاد نہیں اور ہنزہ کی پوری جغرافیہ اور آبادی کا علم نہیں ہوگا ۔ ان کو اس بات کا بھی علم نہیں ہوگا کہ ہنزہ کے بنیادی مسائل کیا ہیں، ان کا حل کیسے ممکن ہے ۔ مجھے حیرت ہوئی جب میں نے کاغذات نامزدگی کے آخری دن فہرست دیکھی ، ہنزہ سے 41 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، یہ بات میرے لئے باعث حیرت تھی کہ ہنزہ کی محرومیوں میں آوازبلند کرنے کے لئے ایک بھی بندہ دستیاب نہیں تھا اور الیکشن کےلئے 41امیدوار ۔۔۔۔۔؟ پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں لیڈرز بننے کے خواہشمند حضرات پچھلے تین سالوں میں آپ کہاں تھے ؟ جس حلقے کو لیڈر شپ کے حوالے سے بانجھ سمجھا جاتاہے اس حلقے میں اتنے سارے امیدوار۔۔۔۔؟ ہنزہ کے عوام کے لئے یہ الیکشن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ان انتخابات میں کسی بھی قسم کی غلطی ہمیں مستقبل میں مشکلات سے دوچار کر سکتی ہیں اور ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا تو ہم اپنی بربادی کے ذمہ دار ہوں گے ہمیں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے اور ہنزہ کو سیاسی بانجھ بنانے میں محل کا کردار تھا اب محل کا کردار قصہ پارینہ بن چکا ہے ہمیں لیڈر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں کرائے کے لیڈرز نہیں چاہئے اور نہ ہی کراےے کے نمائندے چاہئیں، اس امیدوار کو ووٹ دیں جس میں لیڈرشپ کی کوالٹیز ہوں اور جس کا گھر بار فیملی ہنزہ میں ہی ہو ، جن کے مفادات ہنزہ سے وابستہ ہوں، الیکشن کے اگلے روز بوریا بستر سمیٹنے والوں کو پہلے ہی خبردار کریں اور موسم کے اعتبار سے ہنزہ تشریف لانے اور الیکشن لڑنے والوں کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک کریں جیسا سیاحوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔
ایک اہم بات کہ ہنزہ کو سیاسی بانجھ سمجھنے والے سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھیں سارے لیڈر ز اور فلاسفرز وہاں بیٹھے ہیں ، مجھے ہنزہ کے سیاسی ، معاشی اور دیگر صورتحال پر بحث و مباحثہ ، تجاویز اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بننے والے واٹس ایپ کے کئی گروپس میں شامل ہونے کا موقع بخشا گیا ،میں وہاں جو بحث و مباحثہ سنتا ہوں مجھے یقین نہیں آتا کہ ہنزہ میں لیڈر شپ کی کمی ہے ،ہنزہ کے سارے لیڈرز تو فیس بک اور واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا کے دیگر سائیٹس پر ہیں البتہ گراﺅنڈ میں لیڈرز کی کمی ہے اور جب تک ہمارے لیڈرز فیس بک اور واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کے دیگر سائیٹس پر رہیں گے اور عملی طور ہنزہ کی تعمیر ترقی میں حصہ نہیں لیں گے سوشل میڈیا پر واویلا اور فلاسفیاں جھاڑنے سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔ آج کا دور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا دور ضرور ہے لیکن گلگت بلتستان کی سیاست میں اپنا وجود برقرار رکھنے اور کسی بھی ضلع یا حلقے سے زیادہ خواندگی کے بھرم کو برقرار رکھنے کے لئے عملی میدان میں اپنا وجود دکھانا ہوگا ورنہ ہم سوشل میڈیا پر چیخے چلاتے بھی رہیں تو ہمارے مشکلات دور نہیں ہو سکتے اور نہ ہم سیاسی طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں اس لئے ہنزہ کے عوم سے گزارش ہے کہ وہ اس امیدوار کو ووٹ دیں جو بارش ، دھوپ ، گرمی ،سردی ، طوفان، ،امن ،خوشی ، غم سمیت ہر موقع پر آپکے ساتھ ہو ۔نوجوانوں سے گزارش ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر فلاسفیاں جھاڑنے اور کسی کو برا بھلا کہنے کی بجائے عملی طور ہنزہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں اگر آپ عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو سوشل میڈیا پر عوام کو گمراہ کرنا بند کردیں۔

مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ