ہنزہ نیوز اردو

ہنزہ پر حملہ آور سیاح ۔۔۔ خواتین کے لیے مشورہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/07/19657328_10155351028585340_3735878702987484504_n.jpg” ]وقار احمد ملک [/author]

بستی لوٹنے کی قبائلی نفسیات سے ہم پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ لٹنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی تہذیبی روایت ہم میں نہیں پنپ سکی۔ میں ناران کاغان کا ہمیشہ ناقد رہا ہوں اور چاہنے والوں کو ہمیشہ ایک ہی مشورہ دیا ہے کہ ان سرسبز کہساروں کی جانب رخ نہ کریں جہاں جدید مغربی لباسوں میں خونخوار درندے گھومتے ہیں۔ پہاڑ ایک دوسرے سے ساخت میں کچھ مختلف ہو کر تنوع پیدا کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ روشنی کے مختلف زاویے ایک جمالیاتی مظہر پیدا کرتے ہیں لیکن ان پہاڑوں کے دامن میں تہذیب بستی ہو تو پہاڑ جنت اور اگر درندے بستے ہوں جن کی آنکھوں میں وحشت ہو تو یہی پہاڑ کسی دوزخ کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔

آپ اپنے بچوں کے ساتھ ناران گئے وہاں شدید سردی ہے ۔ سیاحوں کے رش کی وجہ سے کمرے نہیں مل رہے اور جو خالی ہیں ان کا کرایہ 10 سے 20 ہزار طلب کیا جا رہا ہے۔ یہی آپ کا تقریبا سارا بجٹ ہے لیکن کیا کریں بچے سردی میں ٹھٹر رہے ہیں سر پر ایک چھت تو درکار ہے۔ چھت مل گئی ہے لیکن غسل خانے میں پانی نہیں ہے ہوٹل والے بد تمیزی سے کہتے ہیں صبح ملے گا، باہر کھانے کو نکلتے ہیں تو چور اور ڈاکو بھانت بھانت طریقوں اور انتہائی ڈھٹائی سے لوٹ رہے ہیں۔

یہاں کم از کم مجھے یہ سوال تو پوچھنے دیں کہ آپ ناران کرنے کیا گئے؟ آپ ناران کیوں گئے تھے؟ ذہنی سکون کے لیے؟

میں ناران صرف اسی لیے نہیں جاتا کہ وہاں انسانیت نام کی نہیں ہے۔ میں وہاں کیوں جاؤں جہاں میرے رکنے سے دھوکہ دہی کی صنعت مزید مضبوط اور فروغ پائے۔ یہ کیسی جگہ ہے جہاں شراب پی کر غل غپاڑہ کرنا، عورتوں پر آوازیں کسنا، بھونپو بجانا ، چنگھاڑتی موسیقی پر اودھم مچانا سیاحوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان حملہ آاور سیاحوں کا بس نہیں چلتا کہ کپڑے اتار کر ننگے ہو جائیں۔ ایسے “سیاحوں ” کی نفسیات اور ان کے نزدیک خوشی کے مفہوم کی بابت پہلے کئی مضامین میں تفصیلی بات ہو چکی ہے۔

اب بات ہو رہی ہے کہ یہ خونخوار قبیلہ ہنزہ جا پہنچا ہے۔ گذشتہ سال 6 لاکھ سیاح گلگت بلتستان پہنچا۔ ان سیاحوں نے کئی روشن مثالیں ایسی قائم کیں جس سے واضح ہو گیا کہ ہنزہ مزید جنت نہیں رہے گا۔ ہم تو پریشان تھے ہی ، ہم سے زیادہ ہنزہ کے دوست اداس کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔

گذشتہ سال جب سیاحوں کا جم غفیر ہنزہ جا پہنچا تو ہنزہ والوں نے ہوٹلوں کے کمرے بک ہو جانے کے بعد گھروں کے دروازے وا کر دیے۔ ہر طرح سے مدد کی ۔ لیکن مقامی سیاحوں نے کیا کیا؟ یہ تو لگتا تھا سیاح نہیں کوئی حملہ آوور تھے جو ہنزہ نامی بستی کو لوٹنے گئے تھے۔ پھلدار درختوں کے پھلوں کو کھایا کم اور ایک دوسرے کو مارنے میں فرحت زیادہ ڈھونڈی۔ کیا یہ جانتے تھے کہ ہنزہ میں پھلدار درخت ان کی روزی روٹی ہے اور ہنزہ جو پاکستا ن کا سب سے تعلیم یافتہ خطہ ہے کہ تعلیمی اخراجات انہیں پھلوں کی فروخت سے پورا ہوتے ہیں۔

اس دفعہ جو کچھ ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نہیں لکھنا چاہ رہا تھا کہ اس گند کو لکھنے کے لیے بھی لوہے کا کلیجہ درکار ہے جو مقامی سیاحوں نے وہاں پھیلایا۔ ہوٹلو ں میں کچھ لوگ “لڑکی کی ڈیمانڈ” کرتے پائے گئے۔ آپ ذرا اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھئے کہ ہنزہ میں ہماری بہنیں اور بیٹیاں جگہ جگہ کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ یہ طبقہ جس کی سیاحتی تربیت عظیم ترین مراکز مری اور ناران میں ہوئی ہے ان کو کس نظر سے دیکھتے ہوں گے۔

حال ہی میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب خنجراب ٹاپ پر اسلام آباد کی ایک لڑکی مینا طارق کو ہراساں کیا گیا۔ کچھ لڑکوں نے سیکڑوں سیاحوں کی موجودگی میں لڑکی کو گھیرے میں لیا اور سیلفیاں لیتے رہے۔ جب مینا نے چیخنا شروع کیا تو وہ ”لاہور لاہور ہے” کے نعرے مارتے چلے گئے۔

واپسی پر سوست میں وہی لڑکے مینا کو نظر آئے اور مذاق اڑانا شروع کیا۔ مینا نے موبائل کیمرے سے ان کی تصاویر لیں اور پوری کہانی کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی یہ پوسٹ وائرل ہو چکی ہے۔

ایک دفعہ میرے سامنے کچھ لڑکیوں نے مستنصر حسین تارڑ صاحب سے پوچھا کہ کیا گلگت بلتستان جانا محفوظ ہے ۔ تارڑ صاحب نے جواب دیا، بالکل محفوظ ہے۔ وہاں کسی ویران سے ویران جگہ پر بھی خیمہ زن ہو جاؤ کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔ پھر طنزیہ لہجے میں کہنے لگے.۔۔ لیکن تم بور ہو جاؤ گی کچھ دنوں بعد جب دیکھو گی کہ تمھیں کوئی بری نظر سے نہیں دیکھ رہا کوئی ہراساں نہیں کر رہا۔۔۔ تم تو اس معاشرے کا حصہ ہو جہاں یہ سب برداشت کرنا عادت بن چکی ہے۔ ۔

مستنصر حسین تارڑ آج کل امریکہ میں ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ کاش ان تک یہ خبر نہ پہنچے کہ ہنزہ کو نظر لگ گئی ہے۔ اب ہنزہ میں حملہ آوور سیاح پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کے ایک چھوٹے سے خطے میں عورت آزاد اور محفوظ تھی وہاں بھی درندگی پہنچ چکی ہے۔۔ یہ خبر تارڑ صاحب تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ انہیں تو فیری میڈوز کا غم ہی نہیں بھولتا ہنزہ کا تباہ ہونا تو کہیں بڑا دکھ ہے۔

خواتین سے گذارش ہے کہ کوشش کریں حملہ آور سیاحوں کی موجودگی میں وہاں نہ جائیں ۔ حملہ آوور سیاح عید کے آس پاس زیادہ وہاں جاتے ہیں۔

دوسری گذارش ہے کہ اگر آپ کو کوئی ہراساں کرے تو پولیس کو فون کیجئے جس کا نمبر ہنزہ میں جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے۔

تیسری گذارش ہے کہ کسی مقامی ہنزائی کو بتائیں ۔ کوئی بزرگ کوئی ہنزائی لڑکا یاآپ کو کوئی سکاؤٹ نظر آئے تو اس کو فورا بتائیں کہ آپ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ آبادی سے دور ہیں تو جلد کسی آبادی میں پہنچ کر کونسل یا کسی مقامی فرد کواطلاع دیں۔ ہنزہ سے وہ بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔

آخری گذارش۔۔۔ یہ حملہ آور سیاح کوئی اور نہیں۔۔۔ ہمارے ارد گرد رہنے والے بہروپیے ہیں اور بے تحاشا تعداد میں ہیں ان کی یہاں کی گئی کسی بری حرکت کو نظر انداز مت کریں ۔ قانونی چارہ جوئی کریں ۔ سوشل میڈیا کا سہارا لیں یا گھر والوں کو شامل کریں ۔۔۔ لیکن “عورت پن” کے ساتھ جڑے کمزور وغیرہ جیسے لاحقوں سے جان چھڑائیں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بااعتماد طریقے سے بات کرنا سیکھیں ۔ نہیں سیکھ سکتیں تو ہنزہ کی کسی لڑکی کو اپنی بہن اور دوست بنائیں اور اس سے رہنمائی لیں۔ جتنا چھوئی موئی بنی رہیں گی اتنا ہی حملہ آوروں کے لیے تفریح کا ساماں بنا رہے گا۔ حملہ آوروں کے نزدیک صرف ان کی سگی بہن ماں یا بیٹی ہی مقدس ہیں۔ ۔ باقی سب۔۔۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ