Skip to content

ہنزہ نیوز اردو

Search
Close
  • HunzaNews – English
  • آپ کی رائے
  • ہنزہ نیوز ٹیم
  • مضامین
  • تفریح
  • خبریں
    • گلگت بلتستان
    • پاکستان
    • بین اقوامی
  • صفحہ اول
Menu
  • HunzaNews – English
  • آپ کی رائے
  • ہنزہ نیوز ٹیم
  • مضامین
  • تفریح
  • خبریں
    • گلگت بلتستان
    • پاکستان
    • بین اقوامی
  • صفحہ اول
فوری خبریں
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
سر زمین ہنزہ ہر ہائنس پرنس کریم آغا خان کی پہلی تشریف آوری: ترقی اور دنیا کے ہم عصر علمی و فلسفیانہ نظریات پر ان کی مظبوط گرفت۔
جب ناچ اور گانا سرکاری سطح پر ترجیح بن جائے
وقت سے پہلے بے ذوق ذمہ داریاں
کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟
تعلیم اور تربیت: معاشرتی زمہ داری کا سنگم
گنانی: ہنزہ کا اہم تہوار اور شاہی پس منظر
عید قربان اور ضلع ہنزہ کے رسم و رواج
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا مالی بحران اور حل
صوبائی حکومت کا قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سب کیمپسس کو ایک نیا تحفہ
جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ: ایک ظالمانہ رویہ
نیشنل سیکیورٹی کی اہمیت اور ضرورت
پرنسز زہرہ کا دورہ گلگت بلتستان اور کچھ تجاویز
ڈیجیٹل ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ: مصنوعی ذہانت کا ہتھیار
وزیراعظم شہباز شریف نے ہیلی کاپٹر حادثے پر ایرانی صدر، وزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام کے لیے دعائیہ پیغام جاری کردیا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان جمعرات کو جیل سے ویڈیو کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش
گوہرآبادمسائلِستان پر مشتمل تاریخی وادی
آخر زمہ دار کون؟؟
یہ ہاتھ صرف لکھتے نہیں
بارش اور محبتوں کے اڑان

ہماری بدگمانیاں اور حقیقت

  • ہنزہ نیوز اردو
  • February 4, 2019

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر۔عمران اللہ مشعل۔
 
جیو نیوز کے اینکر پرسن سہیل وڑائچ صاحب کا پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ آج یوٹیوب پے دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ سندہ کے ایک صحرہ میں عرب سے آئے ہوئے وزرا شہزادوں اور دیگر مہمانوں کی انٹریو کر رہا تھا اور ساتھ میں انکے طعام وقیام سے لیکر تلور کے  شکار تک کے تمام مراحل بھی اپنے خوبصورت انداز کلام کے ساتھ کے کیمرے کی آنکھ سے عکس بندی کرکے دیکھایا۔ پورا پروگرام تفصیل سے سنا جس سے بہت ساری بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور ہوگئ۔یہ پروگرام سننے سے پہلے بہت سارے ایسی منفی باتیں سنی تھی جس کا تزکرہ دوران انٹریو بھی ہوا تاہم مزکورہ وزیر نے انتہائ اطمینان بخش جواب دیا۔اس سارے پروگرام میں جو چیزیں دیکھیں جو میرے لیے  دلچپسی کا باعث بنی وہ بتاتا چلوں کہ وہاں صحرا میں ایک پوری بستی آباد تھی تقریبا 1 ہزار کے قریب لوگ تھے بستی ایسی تھی جیسا کہ  کوئ صدارتی محل ہو ہر چیز سبزی پھل گوشت اور اشیائے خوردنوش سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود تھی اور انتظام اتنا زبردست کہ عقل دھنگ رہ جائے۔انتہائ سادگی دیکھنے میں آئ لوگ زمین پے مٹی پے بیٹھ کر دوران شکار کھانا خود بنا رہے تھے  جب واپس خیمہ بستی پہنچے تو وہاں بھی اجمتاعی دسترخوان تھا جس میں 200 اقسام کے کھانے موجود تھے پھر چائے کے مختلف اقسام غرض کے ہر چیز تیار تھی انتہائ زبردست نظم و ضبط کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔دوران انٹریو انہوں نے بتایا کہ ہم  پاکستان کی خوشحالی میں ہمیشہ  اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہے سیاست پاکستان کا اندرونی مسلہ ہے اسلئے  ہمارا سیاست سے لینا دینا نہیں ہے تمام سیاست دانوں سے اچھے تعلقات ہے مرحومہ بےنظیر سے تعلق  1976 اور 1977 کے دوران جب وہ آکسفوڑد سے ماسٹر ڈگری کر رہی تھی اسی وقت میں انڈرگریجویٹ تھا اس وقت سے تعلقات تھا۔پاکستان میں اپنا وسیع کاروبار بھی ہے لیکن تعلق کو کبھی کاروبار اور سیاست میں استعمال نہیں کیا۔
اس پورے انٹریوں کے دوران دو سوال بہت دلچسپ تھے 
”ایک کیا امت مسلمہ ایک ہوسکتی ہے“؟ اور دوسرا انکی مطالعے کے حوالے سے تھا۔
پہلے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کے مسلم امہ کو ایک کرنے کے لیے سب سے پہلا اپنا ملک کو بہتر کرنا چاہیے جب ہم خود ٹھیک ہونگے تو پھر دوسروں کی بات کرسکتے ہے۔
دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مطالعہ بہت زیادہ ہے خاص کر کچھ کتابوں کا نام بھی بتایا جن میں
 Clash of civilization
The Road lees Traveled
Power shift
وغیرہ یہ کتابیں زیادہ پڑھی ہے اور ان سے کافی کچھ دنیا اور سیاست کے حوالے سے سیکھنے کو ملا ہے۔یہ دونوں سوال میرے لیے دلچسپ اسلئے تھے کہ ایک ہم ہے جو اپنے  ملک کا نہیں سوچتے ہے اور دنیا کو فتح کرنے کا کہتے  ہے پہلے ہم خود اپنی درست سمت کا طعین  کریں پھر ہم اسلامی دنیا کی قیادت اور مغرب کو فتح کرنے کا سوچئے۔دوسرا یہ کہ ہمارا مطالعہ بہت کم ہے سنی سنائ باتوں پر یقین کرکے بد گمانی کرتے ہے اور ہمارے سیاست دان بھی ایسے ہے جنکا تعلق جعلی اکاؤنئٹس آف شور کمپنیوں اور غیر قانونی جائیدادوں سے تو ہوتا ہے لیکن مطالعے سے کوسوں دور ہوتے ہے۔
پورے انٹریوں سے یہ بات سمجھ آئ ہے کہ ہم اپنے  سرزمین کی  بہت بے قدری کر رہے ہے ہمارے پاس ایسے صحرا اور سیاحتی مقام ہے جس پر تھوڑا سا کام کیا جائے تو پوری دنیا کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہے اور اپنی آمدن میں اضافہ بھی کرسکتے ہے۔یہی وہ صحرہ ہے جہاں  ہم خوشی سے نہیں جاتے ہے لیکن باہر سے لوگ آکر اس بیابان صحراؤں کو چار چاند لگا رہے اور کڑورں ڈالر کا معیشت میں اضافہ بھی کرکے بھی جا رہے ہے۔
ہمیں چاہیے کہ سنی سنائ باتوں پے بد گمان ہونے کی بجائے اپنے ملک کی ایک بہترین امیج پیش کریں اپنے قدرتی وسائل کے قدر کریں اور انکی حفاظت کریں تاکہ یہ ہماری معشیت کا حصہ بن جائے اور علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کریں۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Prevپچھلاسانحہ علی آباد کی جوڈیشل کمیشن رپورٹ جو جسٹس عالم کی سربراہی میں بنی تھی کو منظر عام پر لایا جائے گا
اگلےایک سے نو تک کے ملازمین ضلع ہنزہ کے مختلف محکموں میں دیگر اضلاع کے ڈومسائل رکھنے والوں کی تعداد 121 ہیں ان ملازمین کو ان کے متعلقہ اضلاع میں بھیجنے کے لئے کمشنر گلگت ڈویژن عثمان علی کی سربراہی میں 16 جنوری کو ہونے والی اجلاس پر ابھی تک عملدرآمد نہ ہونا زیادتی ہےNext

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ

hunzanews.urdu November 6, 2024
مضامین

سر زمین ہنزہ ہر ہائنس پرنس کریم آغا خان کی پہلی تشریف آوری: ترقی اور دنیا کے ہم عصر علمی و فلسفیانہ نظریات پر ان کی مظبوط گرفت۔

(مقالہ خصوصی) عیاں را چہ بیان کے مصداق یہ تاریخی حقیقت روز روشن کے مانند ہے کہ ماہ اکتوبر کی بیس سے چھبیس تاریخ کا

hunzanews.urdu October 23, 2024

Copyright © 2022 ہنزہ نیوز اردو

Designed By: Dot Austere