[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری[/author]
شاید اسے بھی قسمت بدلنا کہیں گے۔
ہمارے ایسی سرزمین ملی جسے تقسیم ہند سے پہلے اناج کا اسٹور روم کہا جاتا تھا۔ کیا نہیں تھا ہمارے پاس، کپاس، چاول، گندم، دالیں، طرح طرح کے پھل، قسم قسم کی سبزیاں، اور پھر 14 اگست 1947 کو طویل جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کا مشرقی حصہ، حُسن اور سبزے سے مالامال خطہ، جس کی پٹ سن ہماری اقتصادیات کے لیے سونا بنی رہی۔ مگر ہم نے قسمت بدل ڈالی، اپنی غلط حکمت عملیوں اور خودغرضی کے حامل مفادات کی خاطر اپنی زراعت کو تباہ اور کھیتوں اور باغات کو ویران کردیا۔ سونے جیسی پٹ سَن گنگناتے دریاؤں، دمکتے ساحلوں، سندر بن کے حُسن والے خوب صورت مشرقی پاکستان کو کھودیا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑی آبادی والا صوبہ ہمارے نقشے سے باہر ہوکر بنگلادیش بن گیا۔
نکال باہر کرنے، باہر بھیجنے اور اپنی قسمت دوسروں کو دے دینے کا چلن جاری رہا۔
ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں پاکستانیوں کی ذہانت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ہمارے ادارے باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں ترقی کرکے دوسروں کے لیے ایک مثال بن گئے تھے۔ اس صورت حال کا ایک نمونہ پی آئی اے تھی۔ پاکستانیوں کی ذہانت اور صلاحیت ہر شعبے میں کرشمے دکھارہی تھی۔ ہمارے ایک ماہراقتصادیات اور وزیرخزانہ محبوب اؒلحق کا اقتصادی ویژن اپنا کر دوسروں نے ترقی کی، ہمارے سائنس دانوں نے بہت مشکل حالات کے باوجود ملک کو ایٹمی قوت بنادیا اور وہ بھی ایسی جوہری صلاحیت جو وسائل میں ہم سے کہیں آگے ملک بھارت کے مقابلے میں کہیں بہتر اور ترقی یافتہ ہے۔ ہمارے تیکنیکی ماہرین نے وہ شان دار دفاعی آلات تیار کیے، ہمارے ڈاکٹروں نے طب کے شعبے میں ملک کا نام روشن کیا۔ ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی سے ڈاکٹرعطاالرحمٰن تک ہمارے کتنے ہی سائنس داں دنیا میں پاکستان کی پہچان بنے۔ حالات یہی رہتے تو ترقی کا سفر جاری رہتا۔
پھر ہم نے قسمت بدل ڈالی
ہماری درس گاہوں سے اداروں تک ذہانت اور صلاحیت سے وہ سلوک کیا گیا ہر ذہین، بہ صلاحیت اور ہنرمند پاکستانی ملک سے باہر جانے کے لیے پر تولنے لگا۔ بدامنی، خون خرابہ، بدانتظامی، بدعنوانی، غرض یہ کہ ہر بدی نے مشترکہ محاذ بنا کر ذہانت اور صلاحیت کے قیمتی سرمائے کو ملک کی سرحدوں کے پار دھکیل کر سات سمندر پار پہنچا دیا اور ہم کتنے ہی نہایت بہ صلاحیت ڈاکٹروں، انجنیئروں، سائنس دانوں اور مختلف شعبوں کے قیمتی افراد سے محروم ہوگئے۔ محرومی کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں، پوری شدت سے جاری ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کرکٹ، ہاکی اور اسکوائش کی دنیا میں چھایا ہوا تھا۔ ہماری کرکٹ ٹیم دنیائے کرکٹ کی چوٹی کی ٹیم تھی۔ ہم مختلف ٹیموں کو ان کے ملک میں شکست کا مزا چکھاتے رہے۔ ہمارے بیٹسمین اور فاسٹ باؤلرز کے نام کا کرکٹ کی دنیا میں ڈنکا بجتا تھا۔ ہم اس کھیل کے عالمی چیمپیئن قرار پائے۔ ہاکی کے میدانوں میں تو ہمارا سبز ہلالی پرچم ایک مدت تک بڑی شان سے لہراتا رہا۔ ہاکی کا تذکرہ ہو اور پاکستان کا نام نہ لیا جائے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک وقت تھا کہ ہاکی کے مقابلوں کے تمام اعلیٰ ترین اعزاز ہماری جھولی میں پڑے ہوئے تھے۔ اسکوائش کی بات کی جائے تو پاکستان کے مایہ ناز سپوت جہانگیر خان اور فتح لازم وملزوم تھیں۔
پھر ہم نے قسمت بدل ڈالی۔
اقرباء پروری، تعصبات، ذاتی مفادات، باہمی عداوتیں جیتنے لگی اور ملک کھیل کے ہر میدان میں ہارنے لگا۔ مکروہ سازشیں اور کالی سیاست نے ہر کھیل میں ہمیں پسپا کیا۔ ہاکی کے میدانوں میں تو ہم نام کے ساتھ امید بھی کھوچکے ہیں۔ کرکٹ کے مقابلوں میں باربار شکست ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ اسکوائش کی دنیا میں ہمارے اب کوئی پہچان نہیں۔ ہم نے اپنے تمام اعزازات دوسروں کو بخش دیے باہر بھیج دیے۔
اس سرزمین نے اپنے کچھ بیٹوں کو ایسا نوازا ایسا مالا مال کیا کہ ارض پاکستان پر پھیلے آسمان سے ان پر دولت برسنے لگی۔ وہ جاگیردار ہوں، تاجر اور صنعت کار یا سیاست داں، قومی دولت پر ہلہ بول کر، بندربانٹ کرکے، ٹیکس چرا کر، قیمتی اراضیاں اونے پونے خرید کر، بینکوں کے بھاری قرضے سالم ہڑپ کرکے، ترقیاتی اسکیموں، سڑکوں، پُلوں، اسپتالوں اور اسکولوں وغیرہ کے لیے مختص رقوم پر ہاتھ صاف کرکے، کُھل کھیل کر، غریب پاکستانیوں کی رگوں سے خون نچوڑ کر ارب پتی کھرب پتی بن گئے۔ چلیے انھوں نے جو کیا اسے بھول کر اس سب کو قسمت کی مہربانی، ان کی محنت اور جدوجہد سمجھ لیتے ہیں، لیکن ملک سے لوٹی ہوئی دولت اگر یہیں لگائی جاتی تو اس دیس کا کچھ نہ کچھ بھلا ضرور ہوتا، اونچائی سے گرنے والے چند سکے غریبوں کی جھولی میں جاکر ان کی حالت بھی کچھ بدل دیتے۔ اس کالے دھن سے صنعتیں لگتیں، کمپنیاں اور ادارے قائم ہوتے، ملک کی معیشت کو فروغ ملتا، لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا، کتنے ہی گھروں میں جہاں بھوک نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہاں چولہے جلتے، افلاس کی وجہ سے تعیم سے محروم رہ جانے والے کتنے ہی بچے کندھے پر گھر کے بوجھ کے بہ جائے بستہ اٹھانے کے قابل ہوجاتے۔ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے مجرم بن جانے والے کتنے ہی نوجوانوں کی زندگیاں بچ جاتیں، کالا دھن ہمارے ملک میں کچھ تو روشنی لاتا….لیکن یہ دھن، یہ سرمایہ ملک سے باہر بھیجا گیا، اس سے بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئیں، کاروبار کیے گئے، آف شور کمپنیاں قائم کی گئیں۔
محنتی افراد، زمین، معدنیات سمیت زمین سے حاصل ہونے والی دیگر نعمتیں، ہنرمند اور ذہین لوگ، کراچی کی آئیڈیل بندرگاہ….اس ملک میں وہ سب کچھ ہے جو کسی ملک کو معاشی قوت اور سرمایہ داروں کی جنت بنا سکتا ہے، لیکن ہم نے اپنی قسمت یوں بدلی کے ایک طرف صنعت کاری کی راہ میں روڑے اٹکائے، دوسری طرف پاکستان سے مال لوٹ کر سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا۔
پاکستان کے باسیوں کے اوصاف اور ہمارے زمینی وسائل پر نظر ڈالیے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری قسمت معاشی ترقی، اقتصادی خودمختاری، عزت، تعلیم، روزگار، امن، مسرت اور ہر شعبے میں کام یابی تھی…..لیکن….ہم نے بڑی محنت سے، بڑی کوشش سے، اپنی قسمت بدل ڈالی۔