ہنزہ نیوز اردو

اکیسوی صدی۔۔۔۔۔۔ زبانوں کا قبرستانا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/19113982_10155279349775340_9155001476205612164_n.jpg” ]امیر حیدر بگورو[/author]

ٹرینگ کوآرڈینیٹر : فورم فار لنگویج انشیٹیوز اسلام اباد
شماریات کی رو سے ، اور زبانوں کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح تعداد میں شاید فرق ہو ، لیکن کچھ مستند ذرا ئع کے مطابق چھے ہزرا سے لیکر سات ہزار تک دنیا میں زبانیں بولی جاتی ہے۔ یہ ایک حیران کن تعداد ہے ۔ کیونکہ دنیا میں اس وقت صرف 180 ممالک ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اکثر معاشرے کشیراللسانی ہے جہاں پر ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہے کم وبیش یک لسانی معاشرہ وہ ہے جس میں صرف ایک زبان مسلسل استعمال کی جاتی ہے اور ایسا حقیقت میں بہت کم ہے اس کے برعکس عام حالات میں دنیا کے اکثر معاشروں میں کئی مختلف زبانیں استعمال کی جاتی ہے عام طور پر صرف ایک زبان کو ریاست میں سرکاری ، قومی یا علاقائی سطح پر قومی زبان کا درجہ دیا جاتا رہا ہے لیکن گزشتہ کافی عرصے سے مختلف ماہر لسانیات اور اس شعبے کے ریسریچرز اور ان کی تعلیمات اور ریسریچ اور زبانوں کے معدومیت کے پیش نظر بہت سارے ممالک نے اپنی یک زبانی قومی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ایک سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانوں کو درجہ دیکر ان کو قومی نصاب میں شامل کیا ہے اس سے ان زبانوں کو جو نہایت خطرے سے دو چا ر ہے ان کو تحفظ دیا جاسکتا ہے اور اگلی نسلوں تک منتقل کیا جاتا ہے
جیسے اوپر ذکر کیا ہے کہ اس کو مدنظر رکھ کر اگر پاکستان کی بات کی جائے اپ میں سے بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہوگا پاکستان بنیادی طور پر ایک کثیر اللسانی ملک ہے جہاں پر لگ بھگ 70 کے قریب زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں لیکن قومی طور پر اگر دیکھا جائے تو ایک ہی زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے باقی زبانوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی ہے بہت سارے لوگوں کا شاید اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ شمالی پاکستان( سوات، چترال اور گلگت) میں اس وقت تیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتیں ہیں جن کو دری زبانیں کہا جاتا ہے لیکن اس لسٹ میں بروششکی شامل نہیں ہیں ماہریں لسانیات نے بروششکی کو (ائیوسولیٹ ) کہا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس زبان کی کوئی اور رشتہ دار زبان نہیں ہے اگر ہم اس حساب سے جو دری زبانیں ہیں ان کو دیکھ لیں تو یہ اندزہ لگانے میں مشکل نہیں ہوگا کہ یہ زبانیں ایک دوسرے کی رشتہ دار زبانیں ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں ایک ماں ہوگی اور باقی ساری ان کی ااولادیں ، لیکن ماہرین لسانیات ان زبانوں کو بہنیں ،بھائی جیسے ٹرمز کا استعمال کرتے ہیں یہاں پر اس تحریر کا مقصد زبانوں کی معدومیت اور ان کی بقا ء کے بارے میں ہیں ۔ جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے اگر ہم شمالی پاکستان سے نکل کر گلگت بلتستان کی طرف آئیں تو یہاں پر یہاں پر 5 زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے نام بلترتیب شینا، بلتی، بروششکی، کھوار، وخی اور داودی(دوماکی) شامل ہیں چونکہ اوپر زکر گیا ہے ماہرین لسانیت نے اکیسوی صدی کو زبانوں کا قبرستان کہا ہے اور کہتے ہیں اکیسوی صدی میں ان دنیا میں موجود ان سات ہزار زبانوں میں اس صدی کے اواخر تک ادھی سے زیادہ زبانیں معدوم ہوئی ہو چکی ہونگی۔ اور یونیسکو نے اس معدومیت سے دوچار زبانوں کی فہرست جاری کی ہے جن میں بدقسمتی سے شمالی پاکستان میں بولی جانے والی دری زبانیں بھی شامل ہیں اگر وقتی طور پر ان زبانوں کے اوپر کام نہیں کیا گیا تو یہ ساری زبانیں قصہ پارینہ بن جائنگی۔ ان زبانوں کی بقاء کو لاحق شدید خطرات کے پیش نظر فورم فار لینگویج انشیٹوز اسلام اباد کی وساطت سے اگست 2016 میں ہم نے ایک سروے کیا تھا جس کا نام ًسیٹین ایبل یوز ماڈل ً ہے جس کو عام لفظوں میں ًسم ً کہا جاتا ہے یہ سروے بنیادی طور پر دس دری زبانوں کے اوپر ہے جن میں اب تین زبانوں پر کیا گیا ہے جن میں شینا زبان بھی شامل ہے ۔ اس سروے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ ان زبانوں کو کون سی بیماریاں لاحق ہیں یہ زبانیں کب تک رہنگی اور ان کو کیسے بچایا جا سکتا ہے تو ناظرین جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے اس سروے میں ہماری ٹیم نے لوکل سہل کاروں کی مدد سے چھے دنوں پر مشتمل پروگرام اور اس کا ڈیٹا حاصل کیا ۔ ناظرین جیسا کہ بہت سارے لوگو جانتے ہیں شینا زبان گلگت بلتستان میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے ایک اندازے کے مطابق اس زبان کے بولنے والے لوگوں کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے یہ زبان گلگت بلتستان کے علاوں انڈین مقبوضہ لداخ کے کافی سارے علاقوں میں بولی جاتی ہے یہاں ایک اور بات کا تذکرہ لازمی ہے ایسی تمام زبانیں جن کے بولنے والوں کی تعدداد دس لاکھ سے زیادہ ان کو خطرے سے دو چار زبانیں نہیں کہا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں وہ زبانیں جن کے بولنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہیں ہیں دہ سسٹین ایبل ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے معدوم ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے تاہم ان کو خطرے سے دوچار زبانوں کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے مثال کے طور پر پنجابی زبان بولنے والوں کا اگر ریشو نکالا جائے تو پوری آبادی کا 45% ہے لیکن پاکستان میں پنجابی زبان معدومیت کے دھانے پر کھڑی ہے ۔ اس زبان کے بولنے والے تیزی سے اپنی زبان چھوڑ رہے ہیں اب آجائے شینا کی طرف تو ہمارا حالیہ سروے اور ہمارے پاس موجود ڈیٹا خطرے کی گھنٹیاں بجا رہاہے ہماری پیاری مادری زبان کو بھی ڈومننٹ زبانوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے زبان، کلچر، اور شناخت کے مختلف ڈومینز غیر مرئی طریقے سے ہمارے ہاتھوں سے سرک گیا ہے کوئی بھی زبان ایک ساتھ ختم نہیں ہوتی ہے سب سے پہلے اس زبان کے مختلف ڈومینز ختم ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر مقامی کھیل ، مقامی طیب ، روایتی کھانے ، روایتی کپڑے جیسے بہت ساری چیزی زبان کے ڈامینز ہونے ہیں کسی بھی زبان کے ختم ہونے سے پہلے اس کے ڈومینز ختم ہوتے ہیں اب زرا غور سے شینا زبان اور اس کے بولنے والوں کی کا معاشرتی مطالعہ کرو تو اپ کو اندزاہ ہو جائے گا کہ کس طرح بہت سارے ڈومینز سرک گئے ہیں اور نئی اور ادھار کی چیزیں نے ان کی جگہ لی ہے اگر ہم مثال کے طور پر اپنے روایتی کھیلوں کی طرف نظر ڈھوڈائیں تو ہمیں اندازہ ہو گا تمام مقامی کھیل معدو م ہو گئے ہیں خواہ وہ مردوں کے ہو یا عورتوں کے ان کی جگہ جدید کھیل جیسے کرکٹ،فٹبال اور ٹیبل ٹینس جیسے کھیل متعارف ہو چکے ہیں اس طرح ہم اپنے تمام ڈومینز کی طرف دیکھ لیں تو سب ہاتھ سے نکل گئے ہیں
اب اگر اس زبان کی تدوین و ترویج کے مقامی طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ تمام زبانیں جن کو ہم ماں بولی کہتے ہیں خاکم بدہن ایک دن آئے گا صرف داستانوں میں ہی ان کا زکر ہو گا ان مدومیت سے دوچار زبانوں کو بچانا کسی فرد واحد یا ادارے کا کام نہیں ہے یہ اس خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کا فرض کہ اپنی زبان کو اس جدیدیت کے حملے سے محفوظ کر کے اس کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کیا جائے ۔ اس تحریر کا حصہ دوئم بھی بہت جلد اپ سامعین کے سامنے پیش کرونگا جس میں ، میں بتاو نگا کہ کس طرح ہم اپنی زبان کو یلغار سے محفوظ کر کے اگلی نسل تک منتقل کر سکتے ہیں

Via : Mountain Pass GB

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ