ہنزہ نیوز اردو

کیا یہ سائبر کرائم ہے یا فائبر کرائم ؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/09/Fawad-Sadiq.jpg” ]فواد صادق[/author]

 

موبائل فون پر اس وقتفراڈ کرنے کے بہت سے طریقے عام ہیں ان میں سب سے سرفہرست تو صباءلوڈ والی ہے۔ صبا ءلوڈ والی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے صدر پاکستان کے نام سے اتنے لوگ واقف نہیں ہوں گے جتنا لوگ صباءلوڈ والی کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے ۔ صباءجو ہسپتال میں بیٹھی ہوتی ہے اور اپنے ایس ایم ایس میں 50 روپے کا لوڈ مانگتی ہے اور واپسی کا وعدہ بھی کرتی ہے۔ اس صباءکے ساتھ اور بھی بہت سی صباءاسکا مسیج فارورڈکرکے اسکی ہم نواحی اخیتارکرچکی ہیں۔ اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 28000 روپے کا چیک ملنے کی نوید سنانے والے فراڈیوں کے موبائل ایس ایم سی بھی اب برُی طرح پِٹ چکے ہیں ۔خاص طور پر اس رمضان کے بعدمعروف ٹی وی شو ( جیتو پاکستان) میں کار نکلنے کی نوید اور پروگرام میں شرکت کے دعوت ناموں پر مشتمل ایس ایم ایس بھی لوگوں کے موبائل فونز پر گردش کرتے رہے۔ یا پھر اس طرح کا میسج نمودار ہوجاتا ہے کہ آپ نے گھر گھر مہم کے دوران فلاں معروف کمپنی کا کوپن بھرا تھا لہذا قرعہ اندازی میں آپکا انعام نکل آیا ہے۔یا پھر ہماری کمپنی کو موبائل کمپنی کے ٹاور لگانے کے لئے ملک بھر میں جگہیں درکار ہیں۔
اسی طرح فراڈیوں کا ایک اور گروہ بھی سرگرم ہے جو نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس طرح کے میسجز موبائل فون پر بھجوائے جاتے ہیں کہ ایک معروف کنٹریکٹر کمپنی کو ملک بھر کے تمام ائر پورٹس پر عملے اور ائر لائینوں کے لئے ائر ہوسٹس لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ اور اسی طرح کے بہت سے ملتے جلتے فراڈ کے بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے فراڈیے سادہ لوح افراد کو لوٹ کر انکا پیسہ اور وقت ضائع کرتے ہیں۔
ماضی میں جب موبائل فون نہیں تھا تب فراڈ کا ایک بہت مشہور طریقہ بہت مشہور تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ اب دوبارہ سے جنم لینا شروع ہوگیا ہے۔کل سہ پہر میںاپنے ایک دوست کے آفس میں بیٹھا فیس بک پر ٹائم ضائع کررہا تھا کہ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے فون ریسو کیا۔ دوسری جانب سے بولنے والے شخص نے سلام لینے کے بعد بڑے اعتماد کے ساتھ میرا نام لے کر کہا جناب کیا حال ہے۔ میں نے اس گمان میں کہہ ڈالا اللہ کا شکر ہے ، کہ فون کرنے والا میرا واقف کار ہی ہوگا۔ ساتھ ہی وہ شخص بولا میں عامر بول رہا ہوں۔ اب چونکہ عامر ایک بہت عام نام ہے اور اس نام کے بہت سے افراد میں حلقہ احباب میں شامل ہیں ، ابھی میں پہچاننے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ فون کرنے والا شخص کہنے لگا کہ ایک مسلہءآن پڑا ہے۔ میں ابھی بھی سوچ میں گم تھا کہ یہ کونسے والا عامر ہے۔ لیکن اس شخص نے مجھے سوچنے کا موقع ہی نہ دیا اور بولتا چلا گیا۔ مختصر سے وقت میں جو مدعا اس شخص نے بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا اسکا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ اس عامر کا ایک محلے دار مزدور ہے اور محنت مزدوری کے سلسلے میں وہ ایک قدیمی عمارت کی ایک بہت موٹیدیوار گرا رہا تھا کہ اس دیوار میں سے سونے کی مورتیاں نکلیں وہ ان مورتیوں کو چھپا کر اپنے ساتھ گھر لے آیا اور ایک مورتی جب اس نے سنار کو دکھائی تو سنار نے کہا کہ یہ تو بالکل سو فیصد سونے کی مورتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی سنار نے اسکو کہا کہ یہ اتنی مہنگی مورتی تمہارے پاس کہاں سے آئی ۔ اب میرا وہ مزدور دوست جو کہ ایک بہت غریب آدمی ہے اور وہ ڈر رہا ہے کہ اتنی ساری مورتیاں جن کا کل وزن تقریبا ساڑھے تین کلو کے لگ بھگ ہے ، وہ اگر باہر کسی کے سامنے کے کر جائے گا تو اس چور کہ کر پکڑ لیا جائے گا۔ لہذٰا وہ خوف کے مارے اس بات پر راضی ہے کہ کوئی بھی شخص اس کو اس ساڑھے تین کلو سونے کے چوتھائی سے بھی کم پیسے دے کر وہ مورتیاں اس سے لے لے تو وہ اسکے لئے تیار ہے۔
اس عامر نامی فراڈیے نے جو جال بجھایا تھا میں اس سے پہلے ہی بخوبی واقف تھا۔ کیونکہ چند ہی دن پہلے اسی طرح کا ایک فون میرے ایک نزدیکی دوست ظفر علی کو بھی آیا تھا جو کہ پراپرٹی کے کام سے منسلک ہیں ۔ ظفر صاحب نے اس وقت جب مجھ سے ذکر کیا تو میں نے اس فراڈیے کو اپنے موبائل فون سے کال کی تو وہ فراڈیا سِرے سے ہی مُکر کیا کہ اس نے اس طرح کی بات کی ہے۔
قصہ مختصر اس فراڈیے کی کال کے دوران ہی میں نے اپنے موبائل فون کا سیپکر آن کردیا اور ہم اس فراڈیے کی گفتگو کو انجوائے کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔ بھولے پن کی اداکاری کے ساتھ ہونے والی ہماری گفتگو سے اس فراڈیے کو شکار جال میں پھنستا دکھائی دے رہا تھا۔ اسنے اپنا جو ایڈریس بتایا وہ پنجاب ایک علاقہ چیچہ طنی تھا اور اس نے مجھے آفر کی کہ آپ چیچہ وطنی آجائیں ایک مورتی کا سیمپل لے کر پوری تسلی کرلیں اگر باقی کی پیمنٹ بعد میں کیجئے گا۔ اسی گفتگو کے دوران ہمارے ایک دوست حسیب صاحب جو اپنی طبعیت میں مزاح اور شرارت کا عنصر زیادہ رکھتے ہیں انہوں نے آخر میں کچھ ایسے سوالات کئے کہ فون کرنے والا فراڈیا سمجھ گیا کہ اسکی دال نہیں گلنے والی اور اسنے فون بند کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ یقینا ہمارے ساتھ گفتگو ختم کرنے کے بعد وہ اگلے شکار کی تلاش میں سرگرم ہوگیا ہوگا۔
جوں جوں ہمارے معاشرے میں لالچ اور حرص بڑھ رہی ہے فراڈ کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور فراڈ کا شکار ہونے والوں میں بھی اسی تناسب سے بڑھوتی ہورہی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ فراڈ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ شکار ہونے والے بھی لالچ اور حرص کا شکار ہوتے ہیں اور تب ہی وہ ان فراڈیوں کا آسان شکار بنتے ہیں ۔ اگر وہ لالچ کا شکار نہ ہوں تو کبھی بھی ان فراڈیوں کے لئے تر نوالہ ثابت نہ ہوں۔
فراڈ کے نت نئے طریقے کیوں نکل رہے ہیں یا پرانے طریقے دوبارہ سے سر کیوں اٹھا رہے ہیں اسکی بنیادی وجہ ہم لوگوں میں پائی جانے والی لالچ خود ہے جب تک معاشرے میں حرص و حوس اور لالچ موجود رہے گی معاشرے سے فراڈ دھوکے بازی دغا بازی جیسی بیماریاں ختم نہیں ہوسکیں گی۔ ان تمام فراڈیوں کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں جو ان نوسر بازوں کے جال میں آجاتے ہیں اور اس جال کی بنیاد لالچ پر مبنی ہوتی ہے۔ اور جو افراد لالچ میں نہیں آتے ان فراڈیوں کے چنگل میں نہیں آتے۔ لہذٰا دھوکے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر سے سب سے پہلے لالچ کو ختم کریں ۔
اب رہی زمہ داری ادروں کی تو پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی ایف آئی ہے سائبر کرائم ونگ کو یہ جان لینا چاہیے کہ جس طرح سائبر کرائم کے ذریعے بنکوں اور اور اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعے یا دیگر الیکٹرانک ٹرانزکشنز کے ذریعے فراڈ ہورہے ہیں اسی طرح جو اوپر طریقہ کار بیان کئے گئے ہیں اگر ان کے ملک بھر میں شکار لوگوں کی تعداد اور فراڈ کی گئی رقوم کو یکجا کیا جائے تو شائد یہ رقوم سرکاری خزانے پر لدے مجموعی قرض سے بھی زیادہ ہو گی۔ لیکن اس سنگین معاملے کو ہمارے اداروں کی طرف سے توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ان اداروں کی اس سنگین معاملے پر عدم توجہ کا اگر آپ عملی مظاہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ۔ اور کچھ نہ کریں بس اسطرح کے فراڈ میں شامل ہونے والی موبائل سم کے نمبر کو ان اداروں کی سرکاری ویب سائٹس پر آن لائن رپورٹ کرنے کی کوشش کررکے دیکھیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ