[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2016/05/1.png” ]حیات اللہ اختر [/author]
کہانی ہے تو پرانی پر ہےسدا بہار۔خاص کر آج کل کے لئے تو اس کو آپ انگریزی والا ستائش کا جملہ اے ون کہہ سکتے ہیں ۔لیکن ایک بات کا وسوسہ ہے کہ پتہ نہیں کہ آپ اس کو نمبر ون سمجھنگے یا نہیں وہ اس لئے کہ آج کے زمانے یا وقت میں کوئی کسی بات کو چاہئے وہ قرانی ہی کیوں نہ ہو بس ایک ہی کسوٹی تعلقات یا ذاتی پسند نا پسند کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی جو ہوئے ہیں ۔اس بات کے ذہن میں آتے ہی پھر خیال ابھرتا ہے کہ کیا فائدہ ایسی کہانی لکھنے کا جس کو پڑھنے کے بعدجب یہ سننے کو ملے الف بے سے واقف نہیں اور چلا ہے کہانیاں لکھنے۔بڑا آیا دانشور اور لکھاری۔ اوہو اللہ معاف میں کہانی لکھنے کے بجائے دوسروںکے عیب بتانے لگا۔بُرا لگا آپ کو مجھے بھی محسوس ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن کیا کیا جائے اس کمبخت عادت کو معاشرے میں جو رائج ہو چکی ہے لکھتے وقت یہ احساس بڑا ہی دل میں اجاگر ہوتا ہے کہ بس میں ہی ہوں دو جماعت پڑھنے والا اور باقی سب ایوے ہی ۔کیوں ایسا ہی ہے نا اس معاشرے میں یا کچھ اور بھی۔اور جو کہانی میں سنانے جا رہا ہوں وہ بھی کچھ ایسی ہی ہے بڑا ہی زعم تھا اس کو اپنی عقل اور سمجھداری پر اپنے سوا کسی کو کچھ نہیں سمجھنا عجیب شرط لگا دی تھی اس نے بیٹی کی شادی کی ۔بارتی بھی سو ہونگے اور بکرے سو ان کو کھانے پڑینگے نکاح سے پہلے اور وہ بھی ایک باراتی ایک بکرا کیسے ممکن تھا کئی دفعہ باراتی آئے ناکام اور واپس چلے گئے پھر کیا ہوا ایک قبیلے کے نوجوان نے دل میں ٹھان لیا کہ اس لڑکی سے شادی کرکے رہیگا اور ضرور اس کی شرط پوری کریگا اس مقصد کے لئے اس نے قبیلے سے صحت مند اور تگڑے جوان تلاش کئے جن سے اسے امید تھی کہ سالم ایک ایک بکرا کھا جائینگے۔قبیلے میں ایک بوڑھا بھی بضد ہوا کہ بارات میں اسے بھی ساتھ لے جایا جائے پہلے تو سب ہسنے لگے پر جو نوجوان شادی کی شرط پوری کرنے جا رہا تھا اس کے مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ اس سے پہلے جتنے لوگ یا بارتی ناکام لوٹے تھے ان میں بھی سارے نوجوان ہی تھے اور سب کے سب ناکام ہوئے اسی بنا نوجوان اس بزرگ کو شامل کرنے پر راضی ہوگئے شائد یہ کام دے جائے۔ اور یوں بارات نے راہ لی اور پہنچے رشتے کے در پر ۔ لڑکی کے باپ نے وہی شرط سامنے رکھ دی سو بکرے سو باراتی جب تک کھا نہیں لیتے رشتہ نہیں ہوگا۔ باراتیوں نے کچھ وقت مانگا جو ان کو مل گیا، مشورہ شروع اور جب بزرگ نے اپنی باری میں کہا کہ شرط منظور ہے پر اس بنیاد پر کہ بکرے ایک دم نہیں ایک کے بعد ایک بکرا کھانے کے لئے پیش کر دیا جائے۔شرط بیٹی کے باپ نے منظور کی اور ہوا یہ کہ یہ شادی طے ہوگئی اور دلہن نوجوان کے گھر پہنچ گئی۔اب آپ مجھے سے یہ نہ پوچھے کہ یہ شادی کیسے ہوگئی کیونکہ وہی عقل کام میں لائی گئی جو سو بکروں کی شرط میں استعمال ہوئی تھی ۔اب آپ خود اپنی عقل سے اخذ کریں کہ اس دنیا میں ایک ہم ہی سمجھدار نہیں بلکہ اور بھی بہت سارے سیانے موجود ہیں جو ہم جیسے اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والوں کے عقل کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں