[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2018/10/Picture-Self.jpg” ]چوہدری محمد اشرف گوجر [/author]
چوہدری محمد اشرف گوجر
جناب وزیراعظم! ٹاسک فورسز کی تشکیل مکمل کیجئے.عمران خان نے کھیل ہی کھیل میں پوری دنیاکی جہاں نوردی مکمل کرلی۔ جہاں بھی گئے مشاہدے کی آنکھ کھلی رکھی۔ مغربی دنیا میں سماجی انصاف، اقتصادی خوشحالی، سیاسی استحکام، قانونی کی حکمرانی، شفافیت، ترقی کے یکساں مواقع، روزگار، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نظام سے بیحد متاثر تھے۔ 25مارچ 1992ء کو ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں برطانیہ کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انہوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ اِس عالمگیر شہرت کو انہوں نے انسانیت کے نام کردیا۔ وہ عظیم مقصد تھا غریب اور مستحق لوگوں کیلئے کینسرہسپتال کا قیام۔ اِس مقصد کیلئے وسائل اکٹھے کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف تھا۔ ہم نے گنگا رام اور گلاب دیوی کا نام تو سُن رکھا ہے۔ گنگا رام ہاسپٹل اور گلاب دیوی ہاسپٹل،میاں بیوی کی وقف شدہ جائیداد پر تعمیر ہیں لیکن ہم مسلمانوں کو اتنی بڑی بڑی قربانیاں دینے کی عادت نہیں ۔ عمران خان نے اِس ناممکن مشن کو ممکن کر دکھانے کیلئے ملک کے طول و عرض میں ہر محلے، شہر اور قصبے کا دورہ کیا۔ وہ کم و بیش ہر سکول، کالج، نجی و سرکاری اداروں میں بھی گئے۔پاکستان کے اندر اور باہر اہلِ وطن نے نہ صرف اُنکے مشن کو سراہا بلکہ دل کھول کر عطیات دیئے۔ فنڈز اکٹھے کرنیکی مہم اُنکی زندگی میں حقیقی تبدیلی کا سبب بنی۔ انہوں نے غربت کی لکیر سے نیچے ہڈیوں کے نیم جاں ڈھانچے رواں دواں دیکھے۔ سسکتی روحیں اور تڑپتے لاشے دیکھے۔ انسانوں اور جانوروں کو ایک ہی تالاب سے پیاس بجھاتے دیکھا۔ بے چین روحیں اور لاغر جسم دیکھے۔ ظلم اورناانصافی دیکھی۔ قوم کو لٹتے دیکھا۔راہبروں کو راہزن پایا۔ قوم کے بچوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے اور بدعنوان حکمرانوں کے نابالغ اور نااہل شہزادوں کو اَرب پتی بنتے دیکھا۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1992ء اور 1996ء کے درمیان چار سال کا یہی وہ عرصہ تھاجس میں انہوں نے پاکستان کو منصفانہ طرزِ حکمرانی پر مبنی جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے 25 اپریل 1996ء کوپاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ یہ ملکی گیر سطح کی پہلی جماعت ہے جو کسی خاندان کی نجی ملکیت نہیں ۔ ہر خاص و عام کو اپنے مشن کے حق میں قائل کرنے کیلئے عمران خان کو 22 سال پُر عزم جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ 2013ء کے عام انتخابات میں7.5 ملین ووٹ حاصل کرکے تیسری متبادل قیادت کے طور پر اُبھرے۔ پھرپیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ ایک طرف پاکستان کے لوگوں کوسماجی انصاف، روزگار، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی، اقتصادی خوشحالی، سیاسی استحکام، معاشرتی ترقی، قانون کی حکمرانی، میرٹ، شفافیت، قرضوں سے نجات، پائیدار ترقی اورخودانحصاری کا راستہ دکھایا تو دوسری جانب نااہل، بدعنوان، کرپٹ اور اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا خودغرض حکمران اشرافیہ کو کڑے احتساب کے ذریعے نشانِ عبرت بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ عمران خان کے انقلابی پروگرام کو اِس قدر عوامی پذیرائی نصیب ہوئی کہ وہ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 16.9ملین ووٹ حاصل کرنیوالے راہنماء بن کر قومی اُفق پر اُبھرے۔پاکستانی قوم بہت باشعور ہے۔ وہ قیامِ پاکستان سے لیکر اقتدار کی رسہ کشی نیز حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے کے مناظر دیکھتی رہی۔ انقلاب، اسلام ، روٹی کپڑے اور مکان کے نام پربھی استحصال کا شکار ہوئی۔ ’’خوشحال پاکستان‘‘، ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اور ’’ایشئین ٹائیگر‘‘ کے نام سے بننے والی فلمیں بھی دیکھیں۔ خدمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ، کرپشن، بدعنوانی اور ملکی تجوری پر ڈاکے پڑتے بھی دیکھے۔ ایک ہی جُملہ، ہر فرد کی زبان پر رواں تھا کہ اللہ پاک نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے صرف ایک شخص کی ضرورت ہے جو اِس بھٹکی ہوئی ناؤ کو ساحل آشنا کردے۔ عمران خان کی باتیں قوم کے دل کو لگیں، انہیں سچائی محسوس ہوئی۔ انہیں لگا کہ کوئی تو ہے جو اُنکی زبان بول رہا ہے۔ پاکستان کی زبان بول رہا ہے۔ قوم بہت فیاض ہے۔ قوم نے اتنے ووٹ دیئے کہ عمران خان کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ، تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ووٹوں کیساتھ انہوں نے اپنی سات دہائیوں کی توقعات، اُمیدیں اور اُمنگیں بھی عمران خان کی جھولی میں ڈالی دیں۔
جناب عمران خان صاحب! یہ بہت عظیم قوم ہے۔ اِس نے ملک دشمن اور عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف آپکو منتخب کیا ہے۔ اِس نے ملک کی محبت میں بیرونی قوتوں کے من پسند راہنماؤں کو مسترد کرکے آپکو چُنا ہے۔ اِس نے آپ سے کوئی ضمانت نہیں مانگی، صرف آپکے لفظوں کی سچائی پر یقین کیا۔ اِسے یقین ہے کہ آپ نے جو کہاوہ کر دکھائیں گے۔ اِسے یہ بھی یقین ہے کہ آپ ماضی کے حکمرانوں سے یکسر مختلف ثابت ہونگے۔ آپنے قوم کو معیاری تعلیم، صحت، جلد و فوری انصاف، قانون کی حکمرانی، میرٹ، شفافیت، باعزت روزگار، ترقی کے مواقع، اقتصادی خوشحالی، زندگی کی بنیادی سہولتیں، بیرونی قرضوں سے نجات اور سب سے بڑھ کر مدینہ پاک جیسی سماجی انصاف پر مبنی فلاحی ریاست دینے کا وعدہ کیا ہے۔آپ اس امر سے آگا ہ ہیں کہ پاکستان پر بیشتر اوقات نظام سقہ اور محمد شاہ رنگیلا جیسے حکمران مسلط رہے جنہوں نے ملک کا حلیہ تک بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ملک کی پالیسیاں بیرونی آقاؤں کی پلکوں کے اشاروں پر بنتی اور تبدیل ہوتی رہیں۔ نااہل، راشی، کرپٹ، بدعنوان حکمرانوں اور اُنکے اشاروں پر رقصاں افسر شاہی نے اس دیس کی کشتی کو منجدھار کیجانب دھکیل دیا ۔ یہ کینسر وطن عزیز کی تمام وزارتوں، محکموں اور اداروں میں بہت بُری طرح سرایت کرچکا ۔ یہ ناسور چوتھے اور آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر تمام ادارے قطعی طور پر مفلوج، معذور اور اپاہج ہوچکے ہیں۔ یہ ادارے روائتی انداز میں ٹھیک نہیں ہونگے۔ آپکو انہیں عملِ جراحت سے گزارنا ہوگا۔ اِ نکی سرجری کرنا ہوگی۔ آپکو ایک ماہر سرجن کی حیثیت سے اِن کا بڑا آپریشن کرنا ہوگا۔
جناب عمران خان صاحب ! آپ نے ادارہ جاتی اصلاحات کے ایک جامع پروگرام کا اعلان کیا ۔ اس مقصد کیلئے آپنے ایک سابق بیوروکریٹ اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کو اپنا مشیر مقرر کیا نیز اُنہیں ہر ادارہ کیلئے الگ ٹاسک فورس قائم کرنیکی ذمہ داری سونپی ۔ یہ یقیناًدرست سمت میں ایک صحیح قدم تھا۔ ضرورت اِس اَمر کی تھی کہ فوری طور پر ہر وزارت، محکمہ اور ادارہ میں محکمہ جاتی عملہ سے الگ تھلگ ماہرین اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ٹاسک فورسز تشکیل دے دی جاتیں نیزیہ ٹاسک فورسز وزراء اور وزارتوں کی مشاورت کے بغیر تشکیل دی جاتیں۔ یہ کام وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات کو اپنے طور پر سرانجام دینا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی کیساتھ مشیر موصوف نے اپنے اِس فریضہ کو آزادانہ طور پر سرانجام دینے کی بجائے ٹاسک فورسز کی تشکیل کیلئے متعلقہ وزراء سے مشاورت شروع کردی ، جس سے ادارہ جاتی اصلاح کیلئے ٹاسک فورسز کے قیام کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ ایسا بھی ہوا کہ کچھ وزراء نے مشیر ادارہ جاتی اصلاحات کو مشورہ دیا کہ اُنکے محکمہ میں ٹاسک فورس تشکیل نہ دیجائے نیز وہ خود ہی وزارت چلانے کیساتھ ساتھ اصلاحات کا کام بھی سرانجام دے لیں گے۔ حیرت ہے کہ مشیر موصوف نے اِن وزراء کا مشورہ مان کر متعلقہ وزارتوں میں ٹاسک فورسز تشکیل دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ صرف چند ایک ٹاسک فورسز تشکیل دی جاسکیں۔
جنابِ وزیراعظم! مشیر موصوف ماضی کی تمام حکومتوں میں فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپنے اپنی 22 سالہ جدوجہد میں عوام کے مسائل کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور آپنے عوام کو یہ باور کروایا ہے کہ اُنکے مسائل ماضی کی حکومتیں حل نہیں کر پائیں نیز یہ کہ آپکے پاس اُنکے مسائل کے حل کی بہتر ویژن اور میکنزم موجود ہے۔ عوام نے آپکے منشور پر اعتماد کرتے ہوئے آپکو مسند اقتدار پر فائض کیا ہے۔ پاکستان اور عوام الناس کو درپیش مسائل کا حل کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ مرض کی درست تشخیص ہی سے علاج ممکن ہے۔ آپ تمام وزارتوں کی مانٹیرنگ کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ جو وزیر کام نہیں کرے گا تین ماہ بعد فارغ ہوجائیگا۔ یہی اُصول مشیروں پر بھی لاگو کرنا ہوگا لہٰذا مشیر ادارہ جاتی اصلاحات کی کارکردگی کی مانٹیرنگ بھی آپ کو خود براہ راست کرنی چاہئے۔ آپکو اِس اَمر کا سخت نوٹس لینا چاہئے کہ موجودہ حکومت کے دو ماہ گزرنے کے باوجود تمام وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں میں تاحال ٹاسک فورسز کی تشکیل کا عمل کیونکر مکمل نہیں کیا جاسکا؟آپکو ہر وزارت، ڈویژن اور محکمہ میں ماہرین اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ٹاسک فورسز کی تشکیل کے کام کی نگرانی اور مانیٹرنگ برائے راست اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی کیونکہ ایسا کرنے سے ہی موجودہ حکومت کے ترقی اور تبدیلی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں گے لہٰذا بہتر نتائج کیلئے ضروری ہوگا کہ ہنگامی بنیادوں پر ہر وزارت، ڈویژن اور محکمہ میں الگ الگ ٹاسک فورس کی فوری تشکیل کے احکامات صادر کئے جائیں۔