ہنزہ نیوز اردو

کسی کے تشنہ لبوں پر سوال تھا پانی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

بے آب و گیاہ ریگستان، سبزہ وسایہ ناپید، زمین پہ کوئی جانور اور آسمان میں کوئی پرندہ نظر نہیں آرہا تھا ،آگ برساتے سورج اور لو کی تپش سے وجود جھلستا محسوس ہو رہا تھا ۔جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنھا اورشیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں سمیت کرب وبلا کی سرزمین میں خیمہ زن ہوا۔ ان  جانثاروں میں خواتین ،بچے،جوان اور بزرگ موجود تھے جو حالات کی سنگینی اور کرختگی سے غافل نہیں تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ جو رستہ ہم نے چنا ہے وہ سیدھا بہشت کی طرف جاتا ہے اور نواسہ رسولﷺ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ حق و باطل کو تمام انسانیت کے سامنے واضح کرے گا۔ خلفائے راشدین کے عہد کے بعد اسلام کی دینی ،سیاسی ،اور اجتماعی تاریخ پر جس نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ کربلا کا واقعہ ہے، ساتھ ہی سنگدلی،اور بے حسی کی جو داستان اس واقعے کے ساتھ منسوب ہے اس پر نسل انسانی کا سر شرم سے جھکا رہے گا۔ دھوکہ،مکراور فریب کی ایسی اوچھی چال کوفہ والوں نے چلی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے طرفداروں کی کثیر تعداد کوفہ میں موجود تھی وہ حضرت حسینؑ کو خط پر خط بھیجتے رہے کہ  ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔۔ لیکن ان کی تلواریں ابن زیاد کے حکم کی تعمیل پرمائل تھیں ۔وہ حسینؑ ابن علی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی طاقت کے باوجود ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ،انہوں نے عہد شکنی کی، اپنی گردن سے بیعت کا حلقہ اتار پھینکنے اور  امام حسینؑ کو دشمنوں کے حوالے کرنے تک کے روادار تھے۔ ان کی تمام ہمدردیاں اہل بیت کے بر عکس دشمنوں کے ساتھ تھیں۔ مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کے ساتھ امام حسینؑ کے قاصد قیس بن مسہر کو بھی ابن زیاد نے قتل کر ڈالا تھا اب وہ لوگ بھروسے کے قابل نہیں رہے تھے۔                

     کوفے  کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی                        

     ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسہ نہیں کیا                          

ابن زیاد نے حُر کو خط لکھا کہ حسینؑ کو کہیں ٹکنے نہ دو،وہ کھلے میدان کے سوا کہیں اترنے نہ پائے وہ قلعہ بند نہ ہونے پائے،انہیں سرسبزوشاداب جگہ پر پڑاو ڈالنے کی اجازت نہ دو۔۔۔۔۔      مجبورا اہل بیت کو کربلا کی سرزمین پر پڑاو ڈالنا پڑا۔ کہنے کو تو دریائے فرات سامنے تھا لیکن ابن زیاد کی سختی کی وجہ سے عمر بن سعد نے مجبور ہو کر گھات کی حفاظت پر سپاہی تعینات کر دئیے تا کہ اہل بیت تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچ سکے ۔                                                                              

کتنے یزید وشمر ہیں کوثر کی گھات میں                        

پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا                                 

ریگستان کی ہوا اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے معصوم بچوں کے پھول جیسے چہرے مرجھانے لگے تو امامؑ اعلی مقام نے اپنے بھائی اور علمدار حضرت عباسؑبن علی کو حکم دیا  کہ تیس سوار اور بیس پیادے لے کر جائیں اور پانی بھر لائیں لیکن پانی کے محافظ نے رستہ روکا، اس پر باہم لڑائی ہوئی اور حضرت عباسؑ بیس مشکیں بھر لائے۔ شدید گرمی اور دو دن کی پیاس کی وجہ سے ان سپاہیوں کو پانی کی طلب تھی لیکن امام حسینؑ اور ان کے اہل وعیال کی پیاس جب تک نہیں بجھتی انہوں نے پانی پینا اپنی غیرت کے منافی سمجھا حضرت عباس سکینہ کی بیقراری دیکھ کر کیسے پہلے پانے پی سکتے ۔ٰمیر انیس کہتا        ہے

گرمی سے تشنگی میں کلیجہ تھا آب آب                                      

تڑپا رہا تھا قلب کو موجوں کا پیچ وتاب                                        

آجاتے تھے قریب جو ساغر بکف حباب                                       

کہتا تھا منہ کو پھیر کہ وہ آسماں جناب                                        

عباس آبرو میں تیری فرق آئے گا                                              

پانی پیا تو نام وفا ڈوب جائے گا                                               

امام اعلی مقام کے ساتھیوں میں وفاداری اور آل رسولﷺ سے محبت کی ایسی صفات تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو چھوڑ کر جانے کی تجویر یکسر مسترد کر دی ۔رات کے وقت حضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم سب خاموشی سے نکل جاو میں چراغ بجھاتا ہوں میرے اہل بیت کا ہاتھ پکڑو اور تاریکی میں ادھر اُدھر چلے جاو،میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں ،یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں میری جان لے کر تم سے غافل ہو جائیں گے۔۔۔

 

شبیر نے اس رات کے رتبے کو بڑھایا

ہر نور سے پُر نور تھا اس رات کا سایہ                    

شبیر نے جس وقت چراغوں کو بجھایا                    

محشر کے اجالوں کو اندھیروں میں دکھایا                 

شبیر سلاتا ہے مقدرکو جگا کر                             

کردار پرکھتا ہے چراغوں کو بجھا کر                    

لیکن تمام ساتھیوں نے آپ کے ساتھ جان دینے کو اپنی سعادت سمجھا اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہوگئے۔ان اعلی مرتبت جان نثاروں نے راستے کی تھکان ،پیاس کی شدت ،ظلم وجبر کو برداشت کرنے اور حسینؑ کی آخری دم تک حفاظت کرنے کی قسم کھائی ،اپنی جان ،مال اور اولاد کو بھی آل رسولﷺ پر بخوشی قربان کرنے پر کمر بستہ ہو کر اعلی کردار کا ثبوت دیا۔ دنیاوی محبت اور سکون کی زندگی کے حصول کے لیے نفس وشیطان کی بے صبریاں ان کے ایمان واستقامت پر غالب نہ آسکیں ،صبر ورضا ،توکل اور استقامت کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ امام حسینؑ نے ہر سختی اور مصیبت میں اللہ پر توکل کیا سچائی اور حق پرستی کو قربان نہیں ہونے دیا ۔ریا کاری سے حق چھیننے والوں کے آگے سینہ سپر ہو کر آنے والے زمانوں پریہ ثابت کر دیا کہ فریب کے مقابلہ میں جیت ہمیشہ راست بازی کی ہوتی ہے۔ دین حق پر کٹ مرنے والوں کی ہمیشہ جیت ہوا کرتی ہے۔ اسلام کی شمع کو روشن رکھنے کے لیےلہو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر چہ  اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے حق کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر انہیں منزل سے دو ر کرنے کی کوشش کی لیکن امام اعلی مقام نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ حق کا راستہ اپنانا آسان نہیں ، یہ تلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے ،لیکن لگن سچی اور اللہ پر توکل ہو توشیر خوار  بچے سے لے کر ستر سال کے بزرگ تک طوفان کا رخ موڑ سکتے ہیں۔  کربلا صرف زمیں کا ٹکڑا نہیں جہاں نواسہ رسولﷺ اور اہل بیت شہادت کا جام پی کر امر ہو گئے، بلکہ یہ صفحہ دہر پر ثبت ہونے والا وہ نقش ہے جو نورو ظلمت کے درمیان حد امتیاز ہے، یہ انسانیت اور    شیطانیت کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، یہ شفقت و محبت کے مقابلے میں حیوانیت و بربریت  کی ایسی المناک داستان ہے جسے نسل انسانی تا قیامت یاد رکھے گی اور اس پر خون کے آنسو بہاتی رہے گی۔                                                                    

 فرات میری آنکھوں کا سوکھتا ہی نہیں                       

کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی                        

 

 

21۔8 ۔18

 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ