ہنزہ نیوز اردو

وہ پیڑ گرگیا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

وہ پیڑ گرگیا

عبدالستار ایدھی چلے گئے…یوں لگ رہا ہے جیسے ہم سب ایک ہر بھرے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے تھے، آندھی آئی اور وہ پیڑ گرگیا، اس کی چھاؤں کھوگئی، ہم اب کڑی دھوپ میں ہیں۔
ہم میں سے ہر کوئی انسانیت کا نام لیتا ہے، لیکن انسانیت کیا ہوتی ہے یہ ہم نے عبدالستار ایدھی سے سیکھا، جو سرتاپا انسانیت تھے۔ ان کی خدمت کا دائرہ کسی خاص زبان بولنے والوں، کسی مخصوص علاقے، مذہب، فرقے، ذات یا برادری تک محدود نہیں تھا، ان کا دست مسیحائی ہر ایک کے زخم پر مرہم رکھتا تھا۔ ان کا دست مسیحائی پاکستان کے ان علاقوں ان گوشوں تک پہنچ کر لوگوں کی مشکلات آسان بناتا تھا جہاں شہریوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی حفاظت کی ذمے دار ریاست پہنچنے سے قاصر رہتی ہے اور کسی مصیبت کے نزول کی صورت میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ پاکستان کے اس مایہ ناز سماجی کارکن کے لیے یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے، چھوٹی بات لگتی ہے، دراصل وہ اپنی مختصر سی جسامت کے ساتھ پوری ریاست کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ انھوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور پھر اپنی ساری عمر، ساری خوشیاں، زندگی کا ایک ایک پل اس عظیم مقصد کے لیے دان کردیا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں سیاست داں نفرت کی بولی بول کر اور لوگوں کو گروہوں میں بانٹ اپنے لیے فائدے حاصل کرتے ہیں، جہاں مذہب کے مقدس نام پر دہشت اور وحشت کی فصلیں بوئی جاتی ہیں، جہاں تاجر اور صنعت کار اپنے مالی فائدے کے لیے کسی بھی حد سے گزرجاتے ہیں، جہاں حکم راں اور سرکاری افسران اپنے ذرا سے فائدے کے لیے ملک کا مفاد بھی داؤ پر لگانے سے دریغ نہیں کرتے، اور تو اور جہاں ہم عوام بھی ملک اور معاشرے کے لیے کچھ اچھا کرنے کی سوچ رکھنے کے بہ جائے اپنی اپنی خودغرضی، تعصبات اور مفادات کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، وہاں عبدالستار ایدھی جیسے انسان کا جنم لینا اور پوری بے غرضی سے انسانیت کی فلاح کے لیے خود کو وقف کردینا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ وہ ہمارے لیے اﷲ تعالی کا کرم اور اس کا احسان تھے، اس کی نعمت تھے۔ ذرا سوچیے، اگر عبدالستار ایدھی اور ان کا بنایا ہوا ادارہ نہ ہوتا تو حادثات اور فسادات میں زخمی ہونے والے کتنے ہی افراد تڑپ تڑپ کر سڑکوں پر جان دے دیتے، سڑکوں پر مرجانے والے کتنے ہی افراد لاپتا قرار پاتے اور ان کے اہل خانہ تاعمر اپنے پیارے کی کھوج میں مصروف اور اس کے زندہ ہونے کی امید سے نڈھال رہتے، کتنے ہی بے گھر لوگ چھت سے محروم رہ کر بھوکے مرجاتے، کتنے ہی گم شدہ بچے غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتے، کتنے ہی کوڑے دانوں میں پھینک دیے جانے والے گناہ کا نتیجہ بے گناہ نومولود بچے کُتوں کی خوراک بن جاتے…حقیقت یہ ہے کہ عبدالستارایدھی نہ ہوتے تو ہماری مشکلات، مصائب، مسائل اور ہمارے غم اس سے کہیں زیادہ ہوتے جو ہم جھیل رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں کوئی فوج سے ریٹائر ہو یا عدلیہ میں ملازمت پوری کرکے فارغ ہو، صنعت وتجارت کے ذریعے اپنے پاس سرمائے کے ڈھیر لگا چکا ہو یا شوبز اور کھیل کی دنیاؤں میں شہرت اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہو، جب اس کے سینے میں عوام کی خدمت کا درد جاگتا ہے تو وہ سیاست کے ایوانوں کا رخ کرتا ہے، خود کوئی سیاسی جماعت کھڑی کردیتا ہے یا کسی مقبول سیاسی جماعت کا حصہ بن جاتا ہے، لیکن عبدالستار ایدھی نے انسانوں کی خدمت کو حقیقی معنوں میں اپنا مشن، راستہ اور کیریر بنایا۔ انھوں نے ایسے وقت میں یہ راستہ منتخب کیا جب ان کے پاس سرمایہ تھا نہ شہرت۔ بس سینے میں انسانیت کی محبت سے لبریز اور لوگوں کے دکھوں پر غم سے لبریز دل تھا، بہت پیارا، بہت خوب صورت اور بہت عظیم دل۔ واجبی سی تعلیم حاصل کرنے والے اس شخص نے ثابت کردیا کہ اگر نیت نیک ہو، ارادہ مضبوط ہو اور فولادی عزم سینے میں دھڑکتا ہو تو تعلیم کا نہ ہونا، سرمائے کی قلت، وسائل سے محرومی، راہ کی مشکلات، سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور نیت اور عزم کام یاب ہوکر رہتے ہیں۔
اگر ہمارے سماج میں خلوص، محبت اور انسانیت کی بے قدری کی مثال دینا ہو تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ وہ ملک ہے، یہ وہ معاشرہ ہے جس نے عبدالستارایدھی جیسے فرشتہ صفت انسان اور محسن کو بھی نہیں بخشا، ان پر بھی الزامات لگائے گئے، انھیں بھی دھمکیاں دی گئیں، مگر اس سب کے باوجود وہ اپنے کام میں منہمک رہے، ایک عاشق کی طرح جسے صرف محبوب سے غرض ہوتی ہے، اسے نہ زمانے کی پروا۔ ہوتی ہے نہ اس کے ہاتھوں لگنے والے پتھروں اور اس کی زبان سے جاری گالیوں کی پرواہ۔ وہ بھی ایک عاشق تھے، انسانیت کے عاشق اور اپنے عشق میں انھوں نے کمال کردکھایا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا،
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
آج اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو عبدالستارایدھی کی صورت میں عشق کی انتہا دیکھ لیتے۔
عبدالستارایدھی دنیا میں پاکستان کی پہچان بن گئے تھے۔ ہم میں سے ہر پاکستانی کو فخر ہے کہ ہم اس دیس کے باسی ہیں جس دیس میں ایدھی رہتا تھا۔ ان کی فلاحی سرگرمیاں اور انسانیت سے ان کے عشق کا دائرہ پاکستان سے پھیل کر عالمی سطح تک وسیع ہوچکا تھا، لیکن یہ دنیا جو پاکستانیوں اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں رہتی ہے، ایک ایسے شخص کی خدمات کا اعتراف کرنے سے کتراتی رہی جس نے اپنے کاموں سے ثابت کردیا تھا کہ وہ اس عہد کا سب سے بڑا انسان دوست ہے۔ نوبیل پرائز بٹتے رہے لیکن عبدالستارایدھی کو اس اعزاز سے محروم رکھا گیا۔ یہ تعصب کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبدالستارایدھی کی ذات نوبیل پرائز کے مقابلے میں بہت بڑی تھی، اور انھیں یہ انعام نہ دے کر اس کی حیثیت کو دو کوڑی کا کردیا گیا ہے، نوبیل پرائز کا ایدھی کو ملنا کو اس اعزاز کے لیے اعزاز ہوتا۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ عبدالستارایدھی سے محبت اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم سب ان کے مشن کو اپنا مشن بنالیں۔ ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور جہاں بھی کوئی مدد کے قابل فرد نظر آئے اس کی مدد کریں، اس کا ساتھ دیں، اور نہیں تو کسی کی ہمت بڑھادیں، کسی کی آنکھوں سے آنسو پونچھ دیں۔ ہمارے یہ افعال ہی درحقیقت ایدھی کی یاد میں روشن کیے جانے والے چراغ ہوں گے، جن سے اجالا بڑھتا جائے گا اور اندھیرے دور ہوتے جائیں گے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ