زندگی کے مختلف ادوار میں ہمارے سامنے طرح طرح کی ذمہ داریاں آتی ہیں، اور یہ ذمہ داریاں کسی حد تک ہماری شخصیت کی تعمیر میں بھی کردار ادا کرتی ہیں اور ہمیں آگے بڑھنے کی ڈھارس بندھاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم مڈل کلاس اور غریب طبقے کے افراد، بالخصوص نوجوان، اپنی زندگی کے سب سے اہم، حسین، خوبصورت اور تخلیقی دور یعنی 20 سے 40 سال کی عمر میں ایک غیر متوازن زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں خود کو ثابت کرنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے مواقع ملنے چاہییں، لیکن اکثر اوقات یہ لوگ بے ذوق اور بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر وقت سے پہلے بوڑھے ہونے لگتے ہیں، جوانی جواب دینے لگتی ہے، خواب ٹوٹنے لگتے ہیں اور انسان بکھر سا جاتا ہے۔
زندگی کی یہ ذمہ داریاں جیسے کہ خاندانی تقاضے، معاشرتی دباؤ، نوکری کی تلاش اور اس کی کارستانیاں، اور مالی مشکلات اور دوسروں کے توقعات، نوجوانوں کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ ان کے خواب اور امنگیں رفتہ رفتہ دبنے لگتی ہیں۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب انسان اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب آپ تخلیقی سوچ یا نئے منصوبے پیش کرتے ہیں تو بڑے بوڑھے اکثر ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر تنقید کرتے ہیں یا آپ کی سوچ کو ناپختہ قرار دیتے ہیں۔
معاشرتی روایات اور ذمہ داریوں کی پابندیاں ان نوجوانوں کو اپنی زندگی میں جمود کا شکار کر دیتی ہیں۔ جس وقت آپ کو اپنی زندگی کے بڑے فیصلے لینے کا اختیار ملتا ہے اور آپ خود مختاری کی طرف بڑھتے ہیں، تب تک جسمانی طاقت اور ذہنی توانائی زوال پذیر ہو چکی ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زندگی ایک ایسی گاڑی ہو جو تیز رفتاری سے چلتے چلتے اچانک بریک لگاتی ہو، اور آپ بس اس کے ہچکولے کھاتے رہ جاتے ہیں۔
یہ صورتحال اس قدر سنگین اور افسوسناک ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں شاید ہم نے کبھی اپنے لئے کچھ کیا ہی نہیں۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی زندگی بے رنگ اور بے ذوق ہو جاتی ہے، اور انسان کی ذات ایک ایسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح محسوس ہوتی ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔
اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب انسان زندگی کی ان ذمہ داریوں کو نمٹاتے نمٹاتے عمر کے ایک ایسے موڑ پر پہنچتا ہے جہاں سے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا موقع نہیں ہوتا، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے بجائے دوسروں کی توقعات کو پورا کرنے میں گزار دیا۔ اور جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو جسمانی توانائی اور ذہنی جوش جواب دے چکے ہوتے ہیں۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی بس یہی ہے؟ کیا ہمیں بس یہ بے ذوق ذمہ داریاں نبھاتے رہنا ہے؟ یا پھر کیا کوئی ایسا راستہ ہے جہاں ہم اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں اور ذوق کو بھی زندہ رکھ سکیں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی کے اس سفر میں توازن پیدا کریں۔ ذمہ داریاں اور دیگر کے توقعات اور خوشیاں اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اگر ہم اپنے ذوق اور خوشیوں کو مکمل طور پر قربان کر دیں تو زندگی کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کا جواب شاید اس میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان چیزوں سے بھی بھرپور بنائیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں، جو ہمیں زندہ محسوس کراتی ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ بتاتی ہیں۔
ہمیں خود کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ زندگی صرف بوجھ اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں ہمیں اپنے لئے بھی کچھ وقت نکالنا چاہئے۔ خوابوں کو زندہ رکھنا اور زندگی کے ذوق کو برقرار رکھنا نہ صرف ہماری اپنی ذات کے لئے ضروری ہے بلکہ یہ ہمارے آس پاس کے لوگوں کے لئے بھی ایک مثبت پیغام ہے۔
زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے آپ کو کہیں گم نہ ہونے دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا ضرور ہے، لیکن آپ کا ذوق، آپ کے خواب، اور آپ کی خوشیاں بھی اس زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اگر ہم ان دونوں کے درمیان توازن قائم کر سکیں تو شاید ہم وقت سے پہلے بوڑھے ہونے کے بجائے ایک بھرپور اور متوازن زندگی گزار سکیں۔