ہنزہ نیوز اردو

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے چند گزارشات

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/09/IMG_20170721_124240.jpg” ]مفتی ثنا اللہ انقلابیؔ رہنما نمبرداران ایسوسی ایشن گلگت بلتستان[/author]

عنان اقتدار پر براجمان گلگت بلتستان کے انصاف پسند ، غریب پرور ، نڈر اور بیباک لیڈر جناب حافظ حفیظ الرحمٰن اور ” ن” لیگ کے منتخب چوکس پارلیمانی سکریٹریز، ججز ، ممبران اسمبلی کی توجہ دلانے واسطے چند حل طلب مسائل سفید کاغذوں پہ نوک قلم رکھ کر جنبش دینے کی جسار ت کر رہا ہوں ۔
۱۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی نقشے پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ شیناکی (لائن) پٹی بھاشہ سے لیکر شندور پولو گراؤنڈ تک انڈس ریور کی جانبین کوہ ہندوکش ، کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے سخت اور سبزے سے خالی بے لباس بلند و بالا فلک بوس پہاڑ K2 اور ننگا پربت کی قیادت میں دنیا کو گلگت بلتستا ن کا جغرافیائی تعارف کرا رہے ہیں جبکہ اس حسین خطے میں محدود علاقے باسیان جی بی کے لیے قابل کاشت ہیں باقی ماندہ اراضی ، افواج پاکستان اور سرکاری اراضیات کے نام پر قابل کاشت ہونے کے باوجود انڈس ریور سے چند گز فاصلے پر بوند بوند کے لیے تر س رہے ہیں ۔موجودہ حکومت کے خداترس حکمران وزیر اعلیٰ کی کاوشوں سے بنجر اراضیات کی پیاس بجھانے کے لیے قابل ذکرProjects زیر غور ہیں خدا کرے کہ جلد از جلد عوام کی دیرینہ خواہش کے مطابق یہ منصوبے عملی شکل اختیار کریں ۔ گلگت بلتستان کے پشتنی باشندے مسلکی جنگ و جدل کی لعنت میں پھنس کر بڑھتی ہوئی آبادی اور نسل نو کے لیے قربانی دینے کے بجائے مسالک اور قومیتوں کے چکر میں قومی اور مسلکی متعفن سیاست کا بدبودریائے ذلت میں اپنی ناؤ کے ناخدا بنے ہوئے ہیں ایسے حالات میں پشتنی باشندگان گلگت بلتستان اور نمبرداران ایسوسی ایشن آل جی بی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہسپتالوں کے ڈلیوری رپورٹس بتا رہی ہیں کہ آباد ی روز بروز بڑھ رہی ہے زمینوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں نئی نسل صرف مکان بنانے کی زمین خریدنے سے قاصر اور بے بس محو تماشا ہے بیان کردہ صورت حال کو مدنظر رکھ کر وزیر اعلیٰ صاحب کو چند تجاویز پر غورکرنے کی ضرورت ہے اگر گراں نہ گزرے تو نظر کرم فرمائیں ، ہماری تجویز کو خلق خدا کی آواز سمجھ کر غور فرمائیں۔
(۱) سرکاری زمینوں کو ڈی سیز اور ماتحت عملے اور نمبرداران کی مدد سے کم از کم قیمت پر ایسے غریب لوگوں کو فروخت کیا جائے جن کی زمین یا تو تقسیم درتقسیم کے نتیجے میں ہے ہی نہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لہٰذا مافیاز کو بالکل فروخت نہ کیا جائے تاکہ ہر غریب باشندہ اپنے مستقبل کے خدشات کو دور کرسکے ۔
(۲) سرکاری زمینوں سے آباد ی کے تناسب سے قبرستانوں کے لیے زمین مفت میں الاٹ کی جائے تاکہ ہر مرنے والا باآسانی سفر آخرت کے پہلے مرحلے کو طے کرسکے ۔

(۳) آبادی کے تناسب سے عبادت گاہوں کے لیے زمین حسب ضرورت مفت فراہم کی جائے تاکہ بڑھتی ہوئی مسلم کمیونٹی اپنے فرائض مذہبی بحسن و خوبی سرانجام دے سکیں۔
(۴) ہر علاقے کی شاملات دہہ کی مکمل نشاندہی عمائدین علاقہ اورنمبردار کی مشاورت سے کی جائے تاکہ قبضہ مافیا زکا راستہ بند ہو چراگاہیں اور مشترکہ اراضیات کا نا جائز استعمال کا راستہ مسدود ہوسکے اور آئے روز کے تنازعات کا خاتمہ ممکن ہو ۔
(۵) ایسا قانون اسمبلی سے منظور کرایا جائے کہ 50 کنال سے اُوپر جن کا انتقال ہے اس کی تحقیق شفاف طریقے سے کی جائے اور ریکارڑ طلب کرکے اثاثہ جات کی جانچ پڑتا ل کی جائے ۔300 کنال یا اسے اُوپر نیچے زمین جن کے نام پر الاٹ ہے وہ کیسے ہوئی ، اُنہوں نے اتنی بڑی رقم کہاں سے Arrange کیا تاکہ احتساب کا عمل سامنے آئے ۔ جن مافیاز نے ملی بھگت سے مشترکہ اراضیات کو اپنے نام کرایا ان ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ انصاف کا تقاضا پورا ہوسکے ۔
وگرنہ جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا محاورہ چلتا رہا تو گلگت بلتستان کے غریب مذید غربت کے دلدل میں پھنس جائیں گے اور مافیاز اسی طرح غریبوں کا خون نچوڑتے رہیں گے۔

مذکورہ تجاویز کسی ایک مسلک یا قوم یا کسی سیاسی پارٹی کے اہداف کی نشاندہی کے لیے دائرہ تحریر میں نہیں لائے گئے بلکہ گلگت بلتستان کے تمام مسالک ، مذاہب اور باسیان گلگت بلتستان کے لاچار ، بے بس ، غریب ہر فرد و بشر کے فائد ے کے لیے ہر دھڑکتے دل کی آواز قراطیس میں متنقل کرنے ادنیٰ سی کوشش ہے ۔
ان تجاویز پر اگر کسی کو اختلاف ہے تو میرے اس نمبر پر رابطہ کرکے حقیقت پر مبنی دلائل کے زریعے رد کرنے کا پورا جمہوری اور شرعی حق رکھتا ہے ۔ 
ایک حقیقت ہے جو آشکار ہوا چاہتی ہے 
میرا مقصد کسی کی آبرو ریزی نہیں ہے

رابطہ نمبر:03555351066 
شناختی کارڑ نمبر71501-5998191-5

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ