ہنزہ نیوز اردو

قدیم روایت کی آمیں اور گلگت بلتستان

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ابھی سے کچھ سال پہلے وہ زمانہ تھا جب
لوگ ایک ہی خاندان ایک ہی تھالی میں کھانہ کھاتے تھے اور وہ محبت کی میٹھاس تھی وہ عزت و شفقت ماں باپ کی بچوں کے لیے اور بچوں کی ماں باپ کے لیے والہانہ محبت ہوا کرتی تھی غربت تھی ملبوسات نہیں تھے رنگے برنگے بناوٹ نہیں تھی پر اس غربت کی افلاس میں بھی لوگ خلوص کی دولت سے مالامال تھے ہر وقت مل کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے کسی کو امیر غریب نہیں سمجھتے تھے کوئی برینڑ نہیں تھی پھر بھی لوگ عزت سے زندگی گزارتے تھے اپنا ہی کمایا ہوا کھاتے تھے چھوٹوں کے لیے بڑوں میں اور بڑوں میں چھوٹوں کے لیے عزت تھی
اب اس رنگہ رنگ دنیا میں صرف خود پرستی کر رہے ہیں اگر سوچا جاے تو بہت کم گھر آیسے ہونگے جن کی دستر خواں پر سارے گھر کے افراد موجود ہونگے اور پیار سے رہ رہے ہونگے ہم دنیاوی لحاظ سے بہت موڑرن اور ڑجیٹل ہوگے یہ دنیا گلوبل ولیج بن گئی غربت کی انتہا ہوگی امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو گیا اتنی رشتوں میں کمزوریاں آ گیی کہ کسی کو بھائی کی فکر نہیں تو کسی کو باپ کی ایسی طرح کسی کو اپنے ماں کی ۔اس کہماگہمی کی دنیا میں انسان آ کیلا ہے پریشاں محبت کا مارا ہے انسان کے اردگرد ہجوم ہے پھر بھی متمکن نہیں آج کل لوگ اپنے خاندان سے زیادہ جانوروں کو ترجیح دیتے ہیں یہ برا بھی نہیں پر اتنا اچھا بھی نہیں کہ اپنے ماں بھائی سے کم اپنے کتا بیلی سے زیادہ باتیں ہوتی ہیں اس لوگوں سے بھری دنیا میں کوئی کسی کو سہارا نہیں سب اپنے لیے سمیٹنے میں مصروف ہیں
کہنے کو ہم مغربی کلچر کو بہت اپناتے ہیں لیکن اپنے قائدہ قانون اخلاقیات کو بھول گئے ہیں اپنے رسومات کو فروخت کر بیٹھے اوروں کے رنگ میں رنگے ہوئے اپنی اس سر زمین پر ہمارے آباؤاجداد کے قرضے ہیں جنہوں نے اپنے لہو سے اس کو آباد کیا اب ہم ان کے سپوت دڈادڑ غیروں کے سپرد کر رہے ہیں خود غلامی کی زنجیروں کو پہنے کے لیے تیار ہیں سوال یہ ہے کیا یہی تھی ہماری پہچان ہماری وراثت جو ہمارے بزرگ چھوڑ گئے تھے۔
دنیا نے بہت ترقی کی ہے ہر آرام و آسائش جس کے لیے انسان ایک دوسرے کے خلاف جان کے دشمن ہیں وہ پیسہ جس سے ہر ایک سب خرید سکتا ہے لیکن وہ اخلاقی اقدار نہیں جو پیسوں سے خریدی نہیں جاسکتی وہ محبت وہ بھائی چارہ نہیں جو پہلے ہمارے محترم بزرگوں میں تھی ۔ جسکو ہم نے کھو دیا ہے اب بھائی بھائی کے لیے وبال جان بن گیا ہے وہ ماں باپ جن کے قدموں تلے جنت ہے اپنے بہت پڑھے لکھے اولاد کو دعائیں دیتے ہوئے سڑکوں پے پھر رہے ہیں افسوس اس بدلتی ہوئی دنیا نے سب کچھ سکھایا جینے کا ہنر پر وہ قانون نہیں جو ایک انسان کو انسان بنا دیتی ہے کہنے کو تو لوگ بہت ہے آس پاس پر انسان بہت کم۔بس فقط ایک نظر خود پر ڈالے تو سب آ یاں ہے۔شکریہ

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ