ہنزہ نیوز اردو

علماء اور بیوروکریسی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کچھ سوالات ہیں، جو ہمیشہ سے دماغ چانٹ رہی ہیں. بالآخر احباب کی مدد لینی پڑتی ہے. مثلا

علماء کرام کو بیوروکریسی میں کب شامل کیا گیا؟

بیوروکریٹ علماء پر علمائے سو کی پھبتی کیوں اور کب کسی گئی؟

علماء، ریاستی امور سے کنارہ کشی کرکے کب درس و تدریس میں محدود ہوئے تھے اور کیوں؟

پرائیویٹ فتوی دینے کا رواج کب پڑا اور کیوں ضرورت محسوس کی گئی؟

جامعہ ازہر کے قیام کی خاص بات کیا تھی؟ اور ابتدائی دو سو سال کے خصوصی نتائج اور ٹارگٹس کیا حاصل ہوئے اور اس کے مسلم دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

سلجوقی مدرسہ نظامیہ کیوں وجود میں لایا گیا؟. اس کے انعقاد کی بڑی وجہ کیا تھی؟

اکبر بادشاہ  نے بیوروکریٹ علماء کو بالآخر کیوں قتل کروادیے،؟ حالانکہ وہ بیوروکریٹ علماء کا بڑا قدردان تھا.

برٹش دور میں علماء نے سروائیول کے لیے کیا راہیں نکالی تھی؟

قیام پاکستان کے بعد علماء مسلسل تذبذب کا شکار کیوں ہیں؟
(یعنی ایک طرف خود کو صرف درس وتدریس تک منحصر کرنا اور دوسری طرف  سیاسی اقتدار کے حصول کی خاطر ہاتھ پاوں مارنا.
ریاستی امور سے دوری بلکہ بیزاری اور اسی تناسب سے ریاستی امور ہاتھ میں لینے کی کوشش، پرائیویٹ فتوی دینے کے بڑے بڑے دارالافتاء اور ساتھ ہی سرکار کیساتھ مشترکہ اعلامیوں کا اجراء، پرائیویٹ جہاد میں کمال استغنی سے شرکت اور اتنی ہی شدت سے اس کی مخالفت، فرقہ واریت کی انتہاء اور اس کی مخالفت، صرف دینی تعلیم کابھرپور نعرہ اور اپنی اولاد کو بڑے بڑے انگریزی اسکولوں میں داخل کرانے کی سرتوڑ کوشش، غرض ہر چیز میں تضاد کی انتہاء ہے.)

اب علماء کرام کا مستقل کیا پلان ہونا چاہیے؟

کیا جدید دور کے تقاضوں کے مطابق علماء کرام کوئی اسٹریٹجی بناسکیں گے؟

کیا مغرب زدہ جدیدیت کا فکری اور علمی محاکمہ اور محاسبہ کرنے کے لیے اپنے طلبہ کو تیار کرسکیں گے اور نصاب میں ضروری تبدیلی کرکے ان جدید مشکلات کا سامنا کرنی کی ان میں صلاحیت پیدا کرسکیں گے؟

کیا اپنے ہی فضلاء کو کسب معاش میں سہارا دینے کے لیے اپنے سلیبس اور دورانیہ تعلیم میں کوئی ہنر/ سکلز سکھانے کا بندوبست کرسکیں گے؟

اور سب سے اہم سوال

کیا آج ایسے فضلاء تیار کرسکیں گے جو بیوروکریسی میں اپنے لیے جگہ بناسکیں اور کم از کم دیندار طبقوں کے جائز مفادات کا تحفظ کرسکیں اور ان اداروں میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرسکیں اور ہونے والے مظالم کی روک تھام اور سدباب کا ذریعہ بن سکیں؟

اور

کیا فیصلہ ساز اداروں تک رسائی کے لیے اپنے طلبہ کی ایسی تربیت کرسکیں گے جو پالیسی میکر بن کر ملک کو اسلامی خطوط کی طرف گامزن کرسکیں گے؟
تو
احباب کیا کہتے ہیں؟

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ