کوئی بھی معاشرہ بہترین نظام عدل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا جب تک معاشرے میں بروقت سستہ اور گھر کے دہلیز پر انصاف فراہم نہیں ہوگا تب تک معاشرے میں جاری بے چینی اور انار کی کا سدباب ممکن نہیں ہے ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو بھی منصفوں کی کمی کا سامنا ہے عرصہ دراز سے بے شمار مقدمات عدالتوں میں زیرے سماعت ہیں ایک عام سی دیوانی نوعیت کی کیس کئی کئی دہائیوں تک انتہائی سست رفتاری سے کچوے کی چال چل کر مدعی اور مدعالیہ دونوں کا کچومر نکال دیتی ہے کئی کیسز باپ دادا کے زمانے سے وراثت کی شکل میں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں ایک جنریشن جوانی سے بزرگی کو پہنچ جاتی ہے تو اگلی نسل اس کو سنبھال لیتی ہے ہمارے ارد گرد کئی لوگ برسوں سے ان کیسز کو جھیل رہے ہیں وکلا صاحبان کے فیسز ادا کرتے کرتے ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت اجاتی ہیں کچھ لوگ ان مقدمات کے چکروں میں حتی کہ اپنے گھر تک کو فروخت کرکے بے گھر ہوجاتے ہیں مگر مقدمہ کا اینڈ نہیں ہوتا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک عدالت میں گنجائش سے زیادہ مقدمات زیرے سماعت ہوتی ہیں ایک جج روزانہ درجنوں کیسز دیکھتا ہے اور ایک عدالت میں سیکڑوں مقدمات ہوتے ہیں اس لئے ہر کیس کو ایک جج تمام پہلو سے دیکھ کر بروقت انصاف فراہم کرنے کی کوشش کریں بھی تو نہیں کر سکتا کیونکہ حج بھی عام انسانوں کی طرح ہوتا ہے.
ہمیں ملنے والی معلومات اور وکلا پینلز کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان کے عدالتوں میں کم از کم دس معززجج صاحبان کی کمی ہے چیف کورٹ گلگت بلتستان جس میں پانچ ججز ہونے چاہیے مگر اس وقت صرف دو ججز موجود ہیں تین ججوں کی کمی ہے جبکہ سپریم ایپلیٹ کورٹ کے تین ججوں میں صرف ایک جج ہیں ایسی طرح سروسز ٹربیونل کورٹ میں تین ججز ہونے چاہیے مگر یہاں چیرمین کی پوسٹ خالی ہیں اے ٹی سی کورٹ نمبر2 کی ایک پوسٹ خالی ہیں بینکنگ کورٹ کا جج نہ ہونے کی وجہ سے کیسز کو ایک مجسٹریٹ دیکھتاہے ایسی طرح نیب کورٹ کے ایک جج کی کمی ہے جبکہ فیملی کورٹ کا تو فی الحال وجود ہی نہیں ہے اگر انصاف کے حوالے سے اس قدر سست روی سے کام لیا گیا تو عوامی سطح پر نظام انصاف سے ہی بھروسہ ا ٹھ جاے گا اور لوگ عدالتوں کے بجاے معاملات کو خود حل کرنا شروع کرینگے طاقت کا استعمال ہوگا اور تشدت کا رجحان پیدا ہوگا بد امنی پروان چڑھے گی جو کہ کسی بھی صورت نیک شگون نہیں ہے سابقہ سلف گورننس آرڈر جس کے تحت ججز کی تقرری کا تمام تر معاملات وضع ہے مگر ایک اور ایگزیکٹو آرڈر دو ہزار اٹھارہ کے بعد یہ معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے نظام انصاف میں خلل پیدا ہوا ہے اور عوام میں بے چینی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں کیونکہ برسوں سے ہزاروں کیسز پینڈنگ ہیں جن کا فیصلہ ہو نا باقی ہے اب حالیہ آرڈیننس سے قبل جس طرح ججز کی تقرری کا طریقہ کار تھا اسی کے تحت ان معزز جج صاحبان کی تقرری کو عمل میں لانے کی صرورت ہے تاکہ عوام کو بروقت انصاف فراہم ہو اور ایسی طرح تینوں ڈویژنوں میں چیف کورٹ کے بنچیز اور سپریم ایپلیٹ کورٹ کے فسیلٹیشن سنٹرز انتہائی خوش آئین اقدامات ہیں اس سے عوام کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی ہر ایک کی اعلی عدلیہ تک رسائی ہوگی مگر ان عدالتوں کے لور سٹاف میں بجاے تبادلے کے مقامی پڑھے لکھے نوجوانوں کو میرٹ کے مطابق بھرتی کر کے خدمت کا موقع دیا جائے تو بہتر رہے گا تاکہ خطہ میں موجود بے روزگاری کی وجہ سے پیدا ہونے والی احساس محرومی بھی کم ہو اور عوام کو انصاف بھی ملے ججز کی تقرری میں بار کی تحفظات بھی قابل غور ہیں ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی وکلا صاحبان کو میرٹ کے مطابق خدمت کا موقع ملنا چاہیےتاکہ برسوں سے زیرے التوا کیسز ختم ہو اور نظام عدل پر عوامی اعتماد بحال ہو مجھے امید ہے کہ حکومت وقت اس اہم ترین مسلے پر توجہ دے گی اور دیر آید درست آید کے مصداق گلگت بلتستان کے عدالتوں میں موجود منصفوں کی کمی فورا پورا کرے گی.