[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری [/author]
انسان کے لیے شاید ہی اس دکھ سے بڑا کوئی دکھ ہو کہ اس کی شناخت اس سے چھین لی جائے یا شناخت دینے سے ہی انکار کردیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل بڑی شان سے مردم شماری کے ڈھول پیٹے گئے۔ اس بات کا بڑا چرچا تھا کہ مردم شماری بالکل ٹھیک ہوئی ہے کیوں کہ اس مردم شماری میں بوٹ والوں کی خاص خدمات لی گئی تھیں۔ لیکن کیا مردم شماری میں ان لوگوں کو شمار کیا گیا کہ جن کے پاس ان کے شناختی کارڈ ہی موجود نہیں تھے، ظا ہر ہے ایسے افراد کو مردم شماری میں شامل ہی نہیں کیا گیا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو آپ کیوں کر اور کیسے یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاح شہر کی آبادی اتنی ہے اور اس علاقے میں اتنے لوگ آباد ہیں۔ یعنی کیسی مضحکہ خیز بات ہے۔ آپ کی مردم شماری جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔ اس بات کو ہم سنتے تو آئے تھے کے بنگالیوں اور مشرقی پاکستان سے سقوط ڈھاکا کے بعد آنے والوں کو شناختی کارڈ نہیں دیے جاتے لیکن اس سے ان کی ذاتی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا نہایت تلخ اندازہ مجھے کچھ دنوں پہلے ہوا۔
گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کی زندگی پر مجھے ایک ڈوکیومنٹری بنانے کا ٹاسک ملا تھا۔ اس مقصد کے لیے شہر کی گنجان آبادی کے بیچوں بیچ آباد ایک کچی آبادی میں میرا جانا ہوا۔ ایک گھر کی کہانی مجھے ٹی وی اسکرین پر دکھانی تھی۔ سو میں نے اپنے کچھ قریبی جاننے والوں کی مدد سے ان کے گھر کام کرنے والی ماسی سے بات کی اور اس سے ملنے کا دن طے پایا۔ سب سے پہلے تو میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ بڑے بڑے مکانوں خوب صورت بنگلوں کے درمیان سے میری گاڑی گزرتی ہوئی ایک دیوار کے سامنے رک گئی، مجھے چونکہ ماسی کے گھر جانا تھا تو میں نے حیرت سے ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ تو وہ جگہ نہیں لگتی کہ جہاں ہمیں جانا ہے۔ میرے ساتھ موجود گارڈ نے دروازہ کھولا اور کہا میڈم یہ کچی دیوار جو بنگلوں کے بیچ دکھائی دے رہی ہے، اس کے اندر ہی ماسیوں کی کالونی ہے۔ اس کچی دیوار میں ایک چھوٹا سے دروازہ تھا۔ دروازہ کیا تھا بس اتنی جگہ تھی کہ ایک وقت میں ایک فرد وہاں سے گزر سکتا تھا۔ بہرحال وہ دروازہ پھلانگ کر جب ہم دوسری طرف پہنچے تو میری حیرت انتہا پر تھی، کیوں کہ فقط ایک دیوار کے پیچھے ایک پوری دنیا آباد تھی۔ نہایت قریب قریب چھوٹے بڑے مکانات، کچھ پکے اور کچھ مکانات کچے تھے۔ یہاں سے وہاں تک چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک فوج تھی، جو ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب تھے، جن کے تن پر آدھے کپڑے تھے یا تو پھٹے ہوئے تھے اکثر تو اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ کپڑے پہنے بھی ہیں کہ نہیں۔ بہرحال ہم متعلقہ گھر پہنچے، جو نہایت سلیقے سے سجایا گیا تھا۔ یہ گھر صاعقہ نامی ایک ستر سالہ بنگالی عورت کا تھا، جس میں وہ اپنی پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی کنوارے تھے، باقی تمام شادی شدہ تھے۔ ہم نیچے والے فلور پر تھے، اوپر نظر پڑی تو بہت ساری نوعمر لڑکیاں اور لڑکے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے صاعقہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اس نے جواب دیا کہ یہ اس کے نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں ہیں۔ صاعقہ بیوہ عورت ہے۔ گھر میں غربت ضرور تھی لیکن ضرورت زندگی کا سارا سامان موجود تھا۔ میری اسٹوری تو ایک طر ف رہ گئی جب مجھے یہ پتا چلا کہ صاعقہ کا ایک بیٹا اسکول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استاد ہے اور انٹر تک تعلیم حاصل کر چکا ہے۔ اس گھر میں ہر فرد مڈل تک تعلیم حاصل کرچکا تھا۔ ایک بیٹے نے کسی نہ کسی طرح انٹر تک تعلیم حاصل کر لی تھی۔ صاعقہ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں اس لیے نہ ہی اس کے بچے انٹر سے اوپر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی اچھی نوکری دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ ’’مجبوراً ہمیں یا تو کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنی پڑتی ہے یا ہماری لڑکیاں گھروں میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا گھر نہیں چل سکتا۔‘‘ صاعقہ کا کہنا تھا کہ میرے گھر میں خدا کا شکر ہے بہت کچھ ہے، کیوں کہ ہم سب کماتے ہیں، لیکن ہم دکھی بہت ہیں اور یہ دکھ مجھے اس ستر سال کی عمر میں ہے اور میرے اس پوتے کو بھی ہے، جس نے ساتویں جماعت کا امتحان دیا ہے۔ یہ دکھ ہمارے گھر میں ہر شخص کو ہے کہ ہمیں ہماری شناخت نہیں دی گئی۔ ہم آج تک اپنی شناخت سے محروم ہیں۔ صاعقہ کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں ہمارے شناختی کارڈ تو بنائے گئے تھے، لیکن جب میعاد ختم ہوگئی تو نادرا نے دوسرے شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا اور ہم ایک دفعہ پھر شناختی کارڈ بنانے کے لیے نادرا آفس کے دھکے کھارہے ہیں۔ اسی وجہ سے میرا بیٹا انٹر سے زیادہ پڑھ نہیں سکتا۔ میں نے کہا صاعقہ آپ کو کیا لگتا ہے ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب اور نم آنکھیں میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان آنے کی سزا ملی ہے۔ اپنے ملک سے محبت کی سزا، اور یہ سزا میں نہیں میرے سامنے ہی میری دو نسلیں بھگت رہی ہیں اور نہ جانے کب تک ہم یہ سزا کاٹیں گے۔
سقوطِ ڈھاکا بعد بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے باعث ہونے والی اس ہجرت کو ہجرتِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ 1972 میں ایک غیرملکی کمپنی نے ذولفقار علی بھٹو کو تجویز پیش کی کہ وہ پاکستان کے شہریوں کا ڈیٹا بیس اکٹھا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے، لیکن اس کمپنی سے یہ کام نہ کروایا گیا ۔ 1973 کے آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعے پاکستانی شہریت کا ایک سادہ ڈیٹا بیس بنایا گیا ۔ 1996 میں بے نظیر دورِحکومت میں پاکستان نے امریکا سے آئی بی ایم بائیومیٹرک سسٹم کے لیے معاہدہ کیا، جو پاکستان کی شہری معلومات اور شناخت کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔ 1998 میں قومی سطح پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریگولیشن اتھارٹی یعنی نادرا کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مشرف دور میں 2000 میں شہریوں کے کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس کا باضابطہ آغاز کردیا گیا۔ اور اسی دور میں ہمارے پاکستانی بنگالیوں اور پاکستانی بہاریوں شناختی کارڈ کے اجراء بھی کیا گیا۔ پرویز مشرف دور میں بنگالیوں کو پاکستانی شہری تسلیم کرکے انہیں شناختی کارڈ جاری کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اب اسے روک دیا گیا ہے۔ اس دور میں بھی یہ کچھ آسان کام نہ تھا۔ ایسا نہیں کہ تمام بنگالیوں کو شناختی کارڈ دے دیے گئے، وہ لوگ جو نادرا کے اہل کاروں کو رشوت دے کر ہی اپنا کام کرواسکے، صرف ان کا شناختی کارڈ بنا باقی اب تک محروم ہیں۔
بنگلہ بولنے والے پاکستانیوں کو ان کی شناخت سے محروم رکھنا قابلِ مذمت ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق جو بچہ جس ملک میں پیدا ہوتا ہے وہاں کا شہری کہلاتا ہے، لیکن ان محبِ وطن پاکستانیوں کو ان کی شناخت سے محروم رکھ کر حکومت ان کی نسلوں میں نفرت کے بیج بو رہی ہے۔
سن1971 سے قبل پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت رکھنے والے مشرقی پاکستان سے اس سانحے سے قبل مغربی پاکستان آنے والے بنگالی سالہاسال سے اپنی شناخت کی جنگ لڑرہے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شناختی کارڈ اور ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے یہ شہری منتقل جائیداد، اموات و پیدائش، وراثت و عائلی معاملات وغیرہ کے معاملے میں بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ اسی طرح سقوط ڈھاکا کے بعد مشرقی پاکستان سے پاکستان آنے والے افراد جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے کہ بہت بڑی آبادی بھی اسی صورت حال کا شکار ہے۔ ان بہاری لڑکے لڑکیوں کے نکاح کے مسائل بھی ایک المیہ ہیں۔ قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ شرعی طور پر تو میاں بیوں بن جاتے ہیں لیکن ان کے پاس اس نکاح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، جس سے مختلف معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ وہ بہاری لڑکے لڑکیاں جو اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ آج پاکستان کے وہ شہری ووٹ ڈالنے سے قاصر ہیں جنھوں نے پاکستان کے لیے ووٹ دیا۔ ان لوگوں کے ساتھ تارکین وطن جیسا سلوک کرنا ظلم ہے۔ کراچی میں بنگلہ بولنے والوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن ان کی رجسٹریشن کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالیوں کی تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ نیز ان سے ملتی جلتی ثقافت کے حامل برما کے تارکین وطن ڈھائی لاکھ سے زیادہ مقیم ہیں۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث یہ لوگ صنعتوں میں کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
بنگالی زبان بولنے والے پاکستانی شہریوں کو تما م قانونی و آئینی حقوق و سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آخر کب تک اپنی شناخت کی جنگ جاری رہے گی۔ پاکستانی حکومت اب بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ آخر کب ان بنگالی بہاری پاکستانیوں کو ان کی شناخت ملے گی یا وہ یوں ہی مصائب جھیلتے رہیں گے۔