قوموں کی زندگی میں اُتار چڑھاو کا اآنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن کوئی قوم غافل رہے اور اپنے حقوق کی جدجہد کو علاقائی امن اور معاشرے کیلئے نقصان سمجھ کر خاموش رہے ایسے میں کوئی آکر اس قوم کودو لخت کرنے کی سازش کرکے عمل درآمد کی طر ف جائیں تو یقیناًیہ بات باعث تکلیف اور اُس قوم کے اندرسے شعورختم ہونے کی دلیل ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ہم آگر انقلاب گلگت بلتستان سے پڑھنا شروع کریں تو لاعلمی کے سبب اس قوم نے اپنے لیڈران کا ساتھ چھوڑ دیا یہی وجہ تھی کہہمارے قومی ہیرو کرنل مرزا حسن خان مرحوم کو کئی بار سلاخوں کے پیچھے دھکیلا اُنہوں نے عوام میں شعور پیدا کرنیکیلئے قومی سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو سازشی عناصر نے اُنہیں متازعہ بنایا، لیکن کوئی بات نہیں آج بھی ہمارے ہاں یوم آذادی گلگت بلتستان سرکاری طور پر مناتے ہیں اور کرنل مزرا حسن خان اور انکے ساتھیوں کی عظیم قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔لیکن افسوس گزشتہ اٹھاسٹھ سالوں سے حسن خان کی سرزمین کو آئین اور قانون کے دھارے سے باہر رکھ کر ہمارے لیڈران بشمول عوام اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم نے الحاق کیا تھا ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دیکر اس خطے کو پاکستان میں شامل کرایا تھا یعنی ہم سب سردار عالم اور میجر بروان کو آباو اجداد مان کر اس خوش فہمی میں رہے کہ مستقبل میں مکمل طور پرپاکستان کا آئینی صوبہ بننے میں کامیاب ہونگے۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ایک طرف سے کشمیری لیڈران نے اس خطے کے ساتھ دھوکھا کیا تو دوسری طرف عوام اور عوامی نمایندوں کی خوش فہمی نے آج گلگت بلتستان کو اس نہج پر پونچایا کہ لوگ گلگت بلتستان کے جعرافئے کو تبدیل کرنے کیلئے دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ سازشی عناصر گلگت بلتستان کی جعرافیائی ،دفاعی اور چین کے ساتھ تجارتی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اس خطے کو دو لخت کرنا چاہے ہیں۔ بدقسمتی سے جو نظام اس وقت گلگت بلتستان میں نافذ ہے اگر ہم حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو وفاق میں اس نظام کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس نظام کو کسی بھی حوالے سے آئین پاکستان کے تحت پروٹیکشن حاصل نہیں ہے ایک صدارتی آرڈنینس کے سہارے پر کھڑی اس نظام کوختم کرنے یا ترمیم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنے سینٹ اور قومی اسمبلی میں سے منظور کرانے کی ضرورت نہیںیہی وجہ ہے کہ باجود تمام تر نعروں خوش آمدیوں کے جب کبھی وفاق محسوس کرتے ہیں کہ یہاں ہمارے مفاد کو نقصان پونچ رہا ہے تو فورا ہی نوے کی ڈگری سے یوٹرن لیکر ہمارے سیاست دانوں کو آئینہ دکھاتے ہیں ۔ افسوس آج اقتصادی راہداری کو قانونی شکل دینے کیلئے گلگت بلتستان کے مسلے کو حل کرنے کیلئے کوشش کرنے کے بجائے اس خطے کو تقسیم کرنے کی باتیں کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں دشمن ملک بھارت گلگت بلتستان کے حوالے سے کیا عزائم رکھتے ہیں اُس بات کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ہم نے گلگت بلتستان کے حوالے سے انڈیا کے ایک مشہور چینل پر پرائم ٹائم پروگرام دیکھا اورمیزبان اور مہمان یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ بھارت گلگت بلتستان کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور گلگت بلتستان کو جو حقوق پاکستان نے نہیں دیاوہ دینے کیلئے تیار ہیں،لیکن افسوس پروگرام میں شریک پاکستان کے تجزیہ نگاروں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے لاعلمی اور خاموشی لمحہ فکریہ تھا۔اس صورت حال میں پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان غیر آئینی ہونے کے باجود بھی پاکستان کیلئے ہر محاذ پر ایک آئینی سپاہیوں سے بڑھ کر قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان اس خطے کے حوالے سے ہمیشہ غیرسمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہیں یاوفاق میں ایک لابی ایسی ہے جو گلگت بلتستان کو پاکستان سے دور کرنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں را کوئی ایجنٹ گلگت بلتستان کے مسلے پر پاکستانی حکمرانوں کو گمراہ تو نہیں کر رہا۔ اب اگر ہم مقامی حکومت کی بات کریں تو پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے وزیراعلیٰ سے لیکر کسی وزیر کے کسی بات کی کوئی اہمیت نہیں لیکن حافظ حفیظ اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کی طرف اشارہ کر چُکے ہیں کہ خطے کومسلکی اور علاقائت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کیلئے عوامی مطالبات ہیں اگر ہم اس سلسلے کی کڑیوں کو ملائیں تو اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا سمیع کا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کے ارادوں کی پول کھولتے ہوئے اعلان کیا کہ کسی بھی صورت میں گلگت بلتستان کو تقسیم ہونے نہیں دیں گے،یعنی اب بلی تھیلے سے باہر آگئی۔اس خبر کے دوسرے دن سپیکربیان دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ہم برداشت نہیں کریں گے پھر قاری حفیظ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے کچھ حصے یعنی ہنزہ،نگر،گلگت اور یاسین کے نام نہاد راجاوں کے نام نہاد الحاق کو بنیاد بنا کر بلتستان ریجن اور استور کو کشمیر کی جولی میں ڈالنا چاہتے ہیں اس مسلے کو کہاں سے اُٹھایا اور کہاں لے جانے کا ارادہ ہے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یوں گلگت بلتستان کی سیاست میں ہلچل سی مچ گئیاور بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین قانون ساز اسمبلی کی طرف مسلسل اخباری بیانات سے ایسا لگ رہا ہے جیسے مولانا سمیع صاحب نے ان افراد کو خواب غفلت سے جاگا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام اراکیں قانون ساز اسمبلی قاری حفیظ کے خلاف کب تحریک عدم پیش کرتے ہیںیا قانون ساز اسمبلی اسے استفاء دیکر ریاست کی جعرافئے کو بچانے اور اقتصادی راہدری میں مناسب حقوق دلانے کیلئے عوام کوسڑکوں پر لیکر آتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کا ریاست کو تقسیم کرنے کی باتیں کرنا کسی بھی حوالے سے ناقابل قبول اور ریاست کے ساتھ غداری کے مترادف ہونگے ہیں۔ گلگت بلتستان ایک اکائی ہے لیکن انہی مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کیلئے ہمارے عوام کو تقسیم کیا ہوا ہے لہذا تقسیم گلگت بلتستان کسی بھی حوالے سے پاکستان کے مفاد میں نہیں اس طرح کے غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے ماضی میں مشرقی پاکستان کوگنواچُکے ہیں۔اگر بلتستان کے عوام بھی اسی طرح کرگل لداخ کی طرف مارچ کرتے ہیں تو کسی کے پاس عوام کو روکنے کیلئے کوئی جواز ہی باقی نہیں رہے گا لہذا پاکستان کے ایوان میں اسطرح کے سازش کرنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان کو تقسیم کرنا مسلہ بنگلہ دیشن سے کچھ کم نہیں ہونگے۔ یوں افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو چاہئے کہ اس سلسلے میں تحقیق کریں اور وزیراعلیٰ سے جواب طلب کریں کہ پاکستان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس خطے کو تقسیم کرکے داخلی اور خارجی مسائل میں پھنسے پاکستان کو مزید مسائل کی طرف کو ن دھکیل دینا چاہتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو۔ آمین
از۔شیرعلی انجم
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ