دو سال پہلے آج ہی کے دن انڈیا کی مودی سرکار نے اپنے زیر نگرانی کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر دی تھی ۔کس نے کیا کیا؟ اور کب کیا؟ ان سوالوں کا دفتر کھولا جائے تو یہ ایک داستان کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس کا احاطہ کالم میں ہونا ممکن نہیں ۔۱۹۴۷ سے لیکر نریندر مودی کے ۵ اگست ۲۰۱۹ کا اقدام اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر انتخابات ۲۰۲۱تک کے ہندوستانی اور پاکستانی انتظامات و اقدامات سے پوری دنیا واقف ہے اگر بے خبری کسی کے حصے میں آئی ہے تو وہ اس خطے کے باسی ہی ہیں جو زندہ باد اور مردہ باد سے آگے کا راستہ طے کرنا ہی نہیں چاہتے یا ان کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ انہوں نے کرنا کیا ہے؟ ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس خطے کے کرتے دھرتے دونوں ملک جس میں ایک ملک جو اسے متنازعہ سمجھتا تھا اور اب بھی اسے متنازعہ ہی سمجھتا ہے یا وہ ملک جس نے ثالثی قبول قبول کرتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ کشمیر تنازعہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت یہاں بسننے والے باسیوں کی مرضی کے مطابق کیا جائیگا۔پر اب اس ملک کا موقف کچھ اور بن چکا ہے جو اب پوری ریاست کو اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے ۔دونوں شروع دن سے ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریاست کی باختیار حکومتیں تشکیل دیتے ۔لیکن آج تک کی تاریخ تک دونوں ملکوں کے اقدامات سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اسے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں وہ دنیا کے سامنے ہے اور ریاست کا ہر با شعور فرد اس سے بخوبی واقف بھی ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جو ریاست کو ایک متنازعہ خطہ سمجھتا ہے ، مسلے کے حل کے لیئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رٹ شروع دن سے ہی لگا رہا ہے ۔ پاکستان کی یہ رٹ یا نعرہ اس وقت بڑا ہی موثر تھا جب ملک دو لخت نہیں ہوا تھا ( اب یہ نہ پوچھنا کہ ملک دو لخت کیسے ہوا ) اس بارے بات چھڑ گئی تو بہت دور نکل جائیگی اور کالم کوسمیٹنا مشکل ہوگا ۔اس لیئے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے پاکستان کا یہ نعرہ اب غیر موثر ہوگیا ہے اب بس یہ ایک نعرہ یا ایک بیان کی شکل میں دکھائی دیتا ہے ۔جسے ایک ہتھیار کے طور پر یا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں لگتا۔وجہ اس کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان شملہ معاہدہ ہے جس کی رو سے کشمیر بین الااقوامی کے بجائے دو ملکوں کے مابین ایک تنازعہ بن کر رہ گیا ہے ۔شملہ معاہدہ جہاں پاکستانی جنگی قیدیوں کی واپسی کی کامیابی کا ضمانت قرار پایا تھا وہاں دوسری طرف کشمیر بارے پاکستانی موقف کی پسپائی کا آغاز یا مسلے سے دستبرداری بھی تصور کیا جاتا ہے ۔اگر ہم مسلہ کشمیر کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کشمیر مسلے میں پاکستان نے ہمیشہ دفاعی اور کمزور پالیسی اپنائی جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوستان نے ہمیشہ جارحانہ اقدامات کیئے ۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ پچھلے دو سالوں میں کشمیر کاز کے معاملے میں ہمیں پاکستان اکیلا اور تہنا دکھائی دے رہا ہے ۔جس کا جیتا جاگتا ثبوت دو سو سے زائد ملکوں جس میں پچاس اسلامی ممالک بھی شامل ہیں کشمیر کاز کی حمایت میں صرف چار ووٹ کا ملنا سب کی آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی ہے ۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور ہو سکتیں ہیں ان وجوہات کے پیچھے جائے بغیر صرف مودی سرکار کے اقدام سے لیکر ان دو سالوں کی طرف اگر ہم دیکھیں تو خطے کی اہمیت اور اس میں ملوث بڑی طاقیتیں ہی اس کھیل کے پیچھے دکھائی دیتی ہیں ۔راجہ فاروق حیدر سابق وزیر آعظم آزاد کشمیر کے بیان جس میں اس نے اپنے آخری وزیر آعظم ہونے کا عندیہ یا اعلان کیا تھا بقول اس کے شائد میں آزاد کشمیر کا آخری وزیر آعظم ہوں سے لیکر پاک انڈیا عسکری قیادت کا آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ اور اسلام آباد میں عسکری قیادت کا پاکستانی سیاسی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات اور ماضی کو دفن کرنے کی باتوں اور بیانوں سے بھی کسی کے عقل میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے یا ہونے جا رہا ہے تو ایسے میں دوسروں کا سر تو ہم پیٹنے سے رہے سوائے اپنے سر کے اور عین ہمارے سر کے اوپر اس وقت کیا ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے اس کی خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے حالیہ دنوں میں وزارت قانون کی طرف سے مجوزہ قانون سازی کی حتمی شکل دیئے جانے کی ہے۔ جس میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کی بات کی گئی ہے ۔ اس مسودے یا مجوزہ قانون سازی میں بھی اقوام متحدہ کا ذکر موجود ہے جس میں یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ عبوری صوبے سے کشمیر کاز کے بارے پاکستان کے موقف میں کوئی کمزوری نہیں آئیگی ۔جس کی رو سے گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کو عبوری کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ جی بی کو پاکستانی پارلیمنٹ اور سینٹ میں بھی نمائندگی کی بات کی گئی ہے ۔لیکن مسودے میں نمائندگی کے طریقہ کار بارے کوئی واضح الفاظ یا وضاحت نہیں ۔صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا کرنے کے لیئے پاکستانی آئین کی شق ایک میں ترمیم کرنے کے لیئے پارلیمنٹ سے بل پاس کروایا جائیگا ۔ بل کے پاس ہونے یا نہ ہونے کے بارے کسی کو خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں میں ببانگ دہل کہنے میں بلکل بھی نہیں ہچکچا رہا کہ بل پاس ہونے میں ایک سکینڈ بھی نہیں لگے گا بس اتنی سی بات اس بارے کہنا ہے کہ یہ ترمیمی بل کب پیش ہوگا اس میں وقت لگ سکتا ہے ۔اور جب ایسا ہوگا تو جو تجاویز اس مسودے میں درج ہیں ان کے مطابق گلگت چیف کورٹ کو ختم کرکے اسے ہائی کورٹ کا درجہ دینا جبکہ سپریم اپلیٹ کورٹ کو یا تو ختم کر دیا جائیگا یا اسے آزاد کشمیر سپریم کورٹ جیسی شکل دی جائیگی اگر چیف اپلیٹ کورٹ کو بالکل ہی ختم کردیا گیا تو پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ کار جی بی تک بڑھایا جائیگا ۔دوسری طرف جی بی الیکشن کمیشن کے بارے یہ تجویز ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ کار جی بی تک بڑھنے کی صورت میں اسے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ضم کر دیا جائیگا اس مسودے میں جی بی کونسل کے بارے کوئی ذکر نہیں کہ آیا جی بی کونسل ختم ہوگی یا اگر برقرار رہنے کی صورت میں اس کا دائرہ اختیار کیا ہوگا ۔ان تجاویز کے بارے جی بی کے قانونی ماہرین ہی اپنی ماہرانہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکتے ہیں ۔میری حیرانی خان صاحب والی جیسی ہے جب باغ آزاد کشمیر میں عبدالقیوم نیازی کا نام لیتے ہوئے اس نے اپنی حیرانی کا اظہار کیا تھا ارے نیازی یہاں کیسے آگیا ؟ میں بھی حیران ہوں کہ ان تجاویز پر عمل ہونے کے بعد کشمیر کاز کو کیسے نقصان نہیں پہنچے گا اور عمل ہونے کے بعد بھی متنازعہ والی صورت حال جوں کی توں قائم رہیگی ۔جب متنازعہ صورت حال باقی رہیگی تو آج اور کل کے نظام میں فرق کیا ہوگا ۔اس حثیت بارے جی بی والوں سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے ۔یہ تو پاکستانی بجٹ والی صورت حال ہے جہا ں عددوں کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی لگتا ہے لفظوں کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ نہیں بس ڈھیلی گرفت گلے کا پھندا بنانا ہی مقصود لگ رہا ہے۔ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا اس اقدام سے پاکستان کے اصولی موقف یا کشمیر کاز کو زک تو نہیں پہنچے گا؟ ۔کیا یہ اقدام مودی کے ۵ اگست ۲۰۱۹ کے اقدام کے جواب میں ایک فعل تو تصور نہیں کیا جائیگا؟ ۔ کیا ایسا کرنے سے ان خطوں میں بسننے والوں کو وہ تمام بنیادی حقوق مل جائینگے جس کا مطالبہ یہاں کے باسی ماضی میں کرتے آئے ہیں ؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو حل طلب ہیں اور کسی باقائدہ اعلان سے پہلے بڑے چھان بین مانگتے ہیں ۔ ایسا اہم فیصلہ متعصبانہ سیاست سے بالاتر ہوکر تمام سٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لیکر بین القوامی ماہرین کی آرا کی روشنی میں کیئے جانے کا متقاضی ہے جلدی کا کوئی بھی فیصلہ یا اقدام بعد میں سبکی کا باعث بن سکتا ہے ۔کس کافر کو انکار ہے پاکستان کی اصولی موقف سے کہ کشمیر مسلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہئے لیکن زمینی حقائق دیکھے جائیں تو اس کا دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔لگتا ایسا ہے کہ اب کشمیر کا مسلہ پاکستان اور ہندوستان کی مرضی سے اپنے آخری منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے ،گلگت بلتستان میں عبوری صوبے کی صدائے باز گشت کے ساتھ ہی اب کی بار ازاد کشمیر انتخابات میں آزاد کشمیر کو بھی عبوری صوبے بنائے جانے کی باز گشت کا سنائی دینا آنے والی تبدیلی کا واضح اعلان ہے ۔