حالیہ جنرل الیکشن میں ہونے والی دھاندلی نے ثابت کردیا کہ دھاندلی بھی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن جدید دور کے میڈیا نے اس دھاندلی کو نہ صرف بے نقاب کردیابلکہ مرحوم ارشد شریف کی پڑھی ہوئی نظم کے وہ الفاظ کہ پس آئینہ کوئی اور ہے کو بھی ننگا کردیا یہ دھاندلی تو ہمیں آج کیمرے کی آنکھ نے دکھائی ہے ورنہ تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس گھناؤنے کام میں ہمارے اہل ہوس ملوث تھے اس وقت وہ جو چاہتے وہ ہوجاتا اور یہ انکی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کسے ایوان اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور اور پھر کیسے اسے رخصت کرکے گھر،جیل یا پھرنشان عبرت بنانے کے لیے اور دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے اسے تختہ دار تک پہنچا دیا جاتا تھایہ ساری باتیں وہ ہیں جو آج سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور اب تو رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن اور علی وزیر نے پوری کردی ہے جسکی گونج نہ صرف پاکستان میں سنائی دے رہی ہے بلکہ دنیا بھر کے سوشل،پرنٹ اور الیکڑانک میڈیاپر زیر گردش ہے آج کا انسان چونکہ پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے اور رہی سہی کصر موبائل فون نے پوری کردی ہے جس نے نہ صرف اس الیکشن کی دھانلی کا پردہ چاک کردیا ہے بلکہ عوام کو بتا بھی دیا ہے کہ آپ کے ووٹوں پر اس طرح ڈاکہ پڑتا ہے آپ زرا اس دور کا تصور کریں جب موبائل کا تصور بھی نہیں تھا اورکیمرہ بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا پولیس اور دوسرے اداروں کا خوف اس قدر ہوتا تھا کہ انسان اپنے جائز حقوق کے لیے بھی ڈرکی وجہ سے تھانے نہیں جاتا تھا ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی حضرات اپنے ضلع میں سیاہ کریں یا سفید کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی بڑے سے بڑا سرمایہ دار،جاگیر دار اور اپنے علاقے کا چوہدری زندہ رہنے کے لیے انہی دونوں کرداروں کے ارد گرد گھومتا تھا انکی خوشنودی میں لگا رہتا تھا اور پھر انہی کی مہربانیوں سے وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا تھا انہی طاقتور لوگوں کا کمال تھا کہ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بھی ہروادیا گیا جس نے پاکستان بنانے میں اپنے بھائی قائد اعظم کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلا کسی مشکل،مصیبت اور آفت سے نہ گھبرائی لیکن اسے ہمارے اپنوں نے ہی شکست دیدی اس الیکشن میں بھی عمران خان کو جس طرح عوام نے ووٹ دیا اور پھر مخصوص حلقوں نے اس ووٹ کو تبدیل کردیا لیکن اس بار ہوا کچھ یوں کہ لوگوں میں شعور بھی تھا،علم بھی تھا اور پھر سوشل میڈیا بھی تھاجسکی وجہ سے ووٹوں میں ملاوٹ کا دھندہ نہ صرف بے نقاب ہو گیا بلکہ بری طرح فیل بھی ہوگیا اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں کراچی سے خیبر تک اپنی ہار جیت سے ہٹ کر صرف اس لیے احتجاج کررہی ہیں کہ ووٹوں کی گنتی پر جو ڈاکہ مارا گیا ہے اسے ختم کیا جائے اور جو بھی جیتا ہے اسے اسکا حق دیا جائے اگر ایسا ہوجائے تو پھر میاں نواز شریف سمیت تمام بڑے بڑے نام سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجائیں گے سیاست کی یہ بساط اسی مقصد کے لیے بچھائی گئی تھی کہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے اور وہ اسی لیے پاکستان واپس آئے تھے کہ “ساڈی گل ہوگئی اے “اور اس کے لیے امریکہ نے سائفر کی صورت میں مداخلت کی عمران خان کو تنہا کر کے تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کیخلاف جمع کی گئی 35 سال سے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے بغل گیر ہوگئے رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں اورسازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرائی گئی اسکے بعد بھی انہوں نے بس نہیں کی بلکہ عمران خان کیخلاف مذہب کارڈ،عورت کارڈ استعمال کیا گیاعمران خان کی نجی لائف کو مذاق بنادیا گیا عمران خین کی طرف سے دو صوبوں کی حکومت چھوڑنے کے باوجود بروقت روک دیے گئے اورنگران حکومتوں نے الیکشن کروانے کی بجائے تحریک انصاف کو ختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کردی عمران خان کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کرتے ہوئے لانگ مارچ سے جبراً روکنے سے لیکرنہتے کارکنان پر شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا گیا عمران خان پر قاتلانہ حملہ کروایا گیا زمان پارک سے طاقت کا استعمال کر کے غیر قانونی گرفتاری کی کوشش کرنے سے لیکر سابق وزیر اعظم کو گربیان سے پکڑ کر گرفتار کر دھکے دیتے ہوئے لے جانا اور پھر میڈیا کے زریعے ساری دنیا کو دکھا نا کہ ہم ایسا کرتے ہیں اسکے بعد 9مئی کا واقعہ ہونا اور پھر عورتوں بچوں بوڑھوں اورنوجوان نسل کو سڑکوں پر مارنے اور گھسیٹتے شدید تشدد کا نشانہ بنانا ارشد شریف کا قتل اورعمران ریاض سمیت عمران خان کے حق میں بولنے والوں کو زبردستی اٹھا لینا گھروں پر حملے کر کے خواتین اور بچوں کو حراساں کرنا کرکے پی ٹی آئی کو توڑنا اورپھر جبراً پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کرنا کارکنان پر بیہمانہ تشدد اور جھوٹے مقدمات کا سلسلہ آندھی اور طوفان کی طرح شروع ہونا عمران خان کو توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات میں گرفتار کرنا اور پھر راتوں کو سزا سناناپارٹی ختم کرکے انتخابی نشان چھننا امیدواروں انکے تجویزاورتائید کنندگان کو گرفتار کرنا جیسے حربے استعمال کیے جانے لگے لیکن عوام نے سب پلان فیل کردیے آج کل تاریخ کا ایک اور جھوٹ کہ بولا جاتا ہے کہ 2018 میں بھی حالات ایسے تھے لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا تھا جو ظلم اور زیادتی 2024 میں تحریک انصاف پر کیا گیا اگر غور کریں تو 2018 تو دور پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کسی الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی اسکے قائدین اور ورکروں پرایسا ظلم نہیں کیا گیا تھا جو اس بار ہوگیا لیکن اسکے باوجود عوام نے بغیر پارٹی،بغیر نشان،بغیر کسی انتخابی مہم کے قیدی کو ووٹ دیکر جتوا دیا لیکن دھاندلی ہمارا قومی کھیل ہے جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا ہے اس لیے اس الیکشن میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا لیکن اس باردھاندلی کرنے والے اناڑیوں کو شائد علم نہیں تھا کہ انکا مقابلہ اس بار اس ایک کھلاڑی وہ بھی فاتح کپتان کے ساتھ ہے جس نے پوری ٹیم کی مایوسی کے باوجود ورلڈ کپ جیت لیا تھااور اس بار تو کپتان کی ٹیم میں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد،علی محمد خان،چوہدری پرویز الہی،عمر چیمہ،اعظم سواتی،علی امین گنڈا پور،راجہ بشارت، حماد اظہر،محمود رشید،میاں اسلم اقبال،زبیر نیازی،اصغر گجر،شہزاد فاروق اورعالیہ حمزہ سمیت سینکڑوں ایک سے بڑھ کر ایک آل راؤنڈر موجود ہیں اور پوری قوم عمران خان کویہ میچ کو جتوانے میں مصروف ہے تو پھر ہار کیسی اور ہار کا ڈر کیسا۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ