سانحہ ہنزہ کے متاثرین کی دل جوئی اپنی جگہ مگر اس سے متاثر ہونے والے خاندانوں کا دکھ درد اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ ہے ان کا خاندان ان کے باپ ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی گزارنے والے ان کے بچے ان کے ماں باپ ان
کی اہلیہ اور ان سے امیدیں وابستہ رکھنے والے ان کے خاندان کے افراد جن کا ہرپل ہرلمحہ اس امید پر قائم ہے کہ ان کا پیارا ان کا لاڈلا ان کی امیدوں کا سہارا اور ان کی پشت پناہی کرنے والا آج اپنی اس ناکردہ گناہ کی پاداش کاسامنا کرنا رہا ہے جو نہ تو اس نے کبھی سوچا تھا نہ اس کے گھر والوں نے اس کی امید رکھی تھی۔
آخر اس کا ازالہ کون کرے گا اور کیسے کرےگا ؟ کیا کبھی کسی نے اس سانحہ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے بارے میں سوچا ہے کیا کبھی اس شخص کے معصوم بچوں کے بارے میں سوچا ہے کہ جس کے بچے اپنے والد کے گھر آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور اسی انتظار میں گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل انتہائی اظییت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ؟ میں ہر روز اس ماہ کا سامنا کرتا ہوں جس کا لخت جگر گزشتہ آٹھ سالوں سے اپنی ناکردہ گناہ کی پاداش کاسامنا کر رہا ہے میں ہرروز ان مظلوم اور معصوم بچوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال دیکھتا ہوں جو ہر ہر لمحہ اپنے پاب کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں میں ان معصوم بچوں کی آنکھوں میں ہنزہ کے ہرایک سیاسی لیڈر سے امیدیں وابستہ کی ہوئی اور گاؤں کے ہرایک فرد سے یہ سوال پوچھتے دیکھتا ہوں جو سب سے ایک ہی سوال کر رہا ہوتا ہے کہ کیا ان کے لاڈ اٹھانے ان کے نخرے اٹھانے والا ان کا باپ کبھی لوٹ کے آیگا کیا کبھی ان کو وہ پیار نصیب ہو گا جس کے وہ حقدار ہیں مگر افسوس کہ ہر بار کی طرح ان کو صرف مایوسی، ناامیدی اور ان کی ان معصوم آنکھوں میں آنسوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “کرے کوئی بھرے کوئی” جنہوں نے یہ سیتم ڈھائی جنہوں نے ہنزہ کی پاک سر زمین پر نہاتے اور غریب عوام کی خون بہائی آج وہ نہ صرف عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے بلکہ ان کو سرکار کی جانب سے ترقی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان لوگوں کو جنہوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے نہ صرف اپنی ضمیر کا سودا کیا بلکہ شہیدوں کی سر زمین سر زمین ہنزہ کا نام بدنام کیا اور یہاں بسنے والے عوام کو ملک وقوم اور ریاست کی نظر میں بری طرح بدنام کیا محب الوطن شہریوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے سامنے بدنام کیا ان کو سرکار کی جانب سے انعام و اسناد دئیے گئے جو کہ ریاست کے لئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی الیکشن کے قریب آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں کو جیلوں میں بند سیاسی اسیران ہیرو نظر آتے ہیں اور ان کی رہائی کا لالچ دے کر عوام ہنزہ سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔
ناصرف ہنزہ بلکہ پورا گلگت بلتستان آج حکومت گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت سے یہ سوال ضرور کرنا چاہتا ہے کہ ان مظلوم اور معصوم افراد کا گناہ کیا ہے جو انکو انکی ناکردہ گناہ کی پاداش میں پابندی سلاسل کیا جارہا ہے کیا کوئی ان کی فیملی کی چیخ و پکار سننے اور ان کی داد رسائی کرنے کے لیے کوئی تیار ہے اور اگر ہے تو خدارا ان کے گھر والون اور ان خاندانوں ہر رحم کرے اور انہیں جلد از جلد باعزت رہا کیا جائے تاکہ ان کے بچے اور ان کے خاندانوں میں جینے کی تمنا پیدا ہو ۔۔۔۔۔!