ہنزہ نیوز اردو

Isolation / lockdown and its psychological effects

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کورونا وائرس 2019 کے آخر میں چین میں ظاہر ہوا اور اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ جہاں اس وبا سے پوری دنیا کے لوگ جسمانی طور پر متاثر ہو رہے ہیں، وہیں اس کے بہت سے نفسیاتی اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے الگ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ جب بھی کسی انسان کو دوسرے انسانوں سے الگ رکھا جاتا ہے تو اس کی سوچ پر اس کے  بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے دوسرے انسانوں سے میل جول اور تبادلہ خیال بہت ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں  ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جیسے اضطراب اور زہنی دباؤ (ڈپریشن)  وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک  یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ  سماجی بندش  کب  تک چلے گی جس کی وجہ سے لوگوں میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے اضطراب  کے علامات زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔ ایسے لوگ جو پہلے سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں ان میں یہ بیماریاں شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے لوگوں میں ذہنی بیماریوں کے امکانات سب سے ذیادہ ہیں، کیونکہ انہیں  روزگار اور معاشی تنگی اور بے یقینی جیسی  پریشانیوں کا ذیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عام لوگوں کے پاس بندش  کے وقت بھی اپنوں سے رابطہ کرنے کے ذرائع موجود ہیں لیکن سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والوں کے پاس یہ سہولیات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

          اس سماجی بندش  کےبچوں کے ذہنوں پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بچوں میں اس غیر یقینی کی صورتحال سے ایک خوف پیدا ہو رہا ہے۔ وہ اس وبا کو بہتر طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ اس وبا پر تبادلہ خیال کریں اور ان کے اندر موجود خوف کو مثبت باتوں سے دور کرنے کی کوشش کریں۔  بچوں کو اپنے گھر پر رہتے ہوئے  زیادہ سے زیادہ جسمانی ، تعمیری اور تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔

ماہرین  نفسیات کے مطابق زیادہ عرصہ گھر پر بند رہنے سے منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی منفی سوچ اور خیالات انسان کو جرائم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ چین میں سماجی بندش  ختم ہونے کے بعد عدالتوں میں طلاق کے بہت زیادہ کیس دائر ہوئے ہیں۔ سپین میں سماجی  بندش  کے پہلے دو ہفتوں کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں ٪18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آسٹریلیا میں اس دوران انٹر نیٹ پر جو تلاش  کی گئی ہے  اس میں ٪75 فیصد یہ تلاش کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد ہونے پر کہاں سے مدد لی جا سکتی ہے۔

یہ وہ ممالک ہیں جو ہم سے بہت زیادہ  تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر  ملک  میں حالات اس سے بھی زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم  اور ہمارے گھر والے بھی ان ذہنی پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم ان باتوں سے پریشان ہوں، ہم اپنی مدد آپ کے تحت ان پر کام کریں اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی لائیں۔

مندرجہ ذیل ایسے بہت سے کام ہیں جن پر عمل کر کے ہم ان ذہنی پریشانیوں  اور مسائل سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔

ورزش کریں

جن کے پاس گنجائش ہو وہ باغبانی کریں

اپنا وقت کتابوں کے مطالعہ پر لگائیں

کھانا پکانا

اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ وقت گزاریں

عبادات میں وقت گزاریں

اچھی باتیں لکھنے کی کوشش کریں

اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کریں

گھر کو صاف ستھرا رکھیں

مثبت سوچ کو اپنانے کی کوشش کریں

کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کریں

 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ