تحریر: معوز ولی خان طالب علم قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی غذر کیمپس
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، جو کہ گلگت بلتستان، پاکستان میں علمی فضیلت کا مرکز ہے، کو ایک غیر معمولی بحران کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی کے ڈین نے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی جانب سے ناکافی فنڈنگ کے باعث کیمپسس(غذر، ہنزہ اور دیامر) کو بند کرنے کا مشکل فیصلہ لیا ہے۔ اس فیصلے نے پوری تعلیمی برادری میں صدمے کی لہریں بھیجی ہیں، جس سے طلباء، اساتذہ اور عملے کو غیر یقینی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کئی سالوں سے مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، باوجود اس کے کہ اس کی علمی فضیلت اور تحقیق میں شہرت ہے۔ گلگت بلتستان کابینہ اجلاس اور صوبائی حکومت نے اس کو گرانٹ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے جس کہ وجہ سے تقریباً 14000 طلباءو طالبات کا مستقبل خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ عملے کی تنخواہوں، انفراسٹرکچر کی ترقی، اور ریسرچ فنڈنگ سمیت یونیورسٹی کی آپریشنل ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے بجٹ میں مختص رقم ناکافی ہے۔ یونیورسٹی مالیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے اندرونی وسائل اور بیرونی گرانٹس پر انحصار کرتی رہی ہے، لیکن یہ اقدامات ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس تعلیم سمیت مختلف شعبوں کے لیے مختص کرنے کے لیے محدود وسائل ہیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی غذر کیمپس کے طلباوطالبات کی جانب سے ضلع غذر کے تمام MNAs اور سپیکر صاحب سے گزارش ہے کہ ضلع غذر کو شہداء کی سرزمین کہ کے سستی شہرت سے نوازنے سے اور سیاسی اعلانات کرنے سے بہتر ہیکہ اس میں تعلیمی اداروں کو پروان چرھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ موجودہ حکومت کے لیے تعلیم ایک ترجیح نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے فنڈنگ کم ہو جاتی ہے۔
پیچیدہ طریقہ کار اور بجٹ مختص کرنے کے عمل میں شفافیت اور بیوروکریٹس کو اضافی پروٹوکول دینے سے بہتر ہے اس خطہ ارض کے اس نکھرتی جامعہ قراقرم کے مسائل پر غور کریں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی بندش سے خطے کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے دور رس نتائج ہوں گے۔ صوبائی حکومت اور ہمارے بیوروکریٹس یونیورسٹی کی قدر کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے جاری کام کو یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرنا چاہیے۔ ہزاروں طلباء کا مستقبل اور خطے کی معاشی ترقی اسی پر منحصر ہے۔