گوہرآباد، گلگت بلتستان کا ایک دلکش اور تاریخی گاؤں ہے، جس کا وجود بارہ سو سال سے قائم ہے۔ کچھ روایات کے مطابق تین ہزار سال سے قائم ہے.قدیم زمانے میں یہ گاؤں تین قلعہ بند آبادیوں، لسنوٹ، ڈبوٹ، اور کھرتلوٹ پر مشتمل تھا.قدیم زمانے میں اکثریتی آبادی یہی قلعہ بند آبادیوں مقیم تھی. جہاں اب بھی قدیم رہائشی مکانات موجود ہیں جو علاقے کے تاریخی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ گوہرآباد اپنی پرانی تہذیب، قدیم رسم و رواج اور بھرپور ثقافت، قدرتی خوبصورتی، زرخیز زمینوں، جنگلات اور چراگاہوں سے جانا جاتا ہے.
اب گوہرآباد کی موجودہ کیفیت بدل گئی ہے.اس گاؤں کا رقبہ اراضی بہت طویل ہے۔ گیس پائن،گیس بالا، دونوں رائیکوٹ، تھلیچی پر مشتمل ہے۔ فیری میڈوز جیسی معروف اور خوبصورت جگہ بھی گوہرآباد کے حصہ میں آئی ہے۔ اور نانگا پربت بھی اسی گوہرآباد میں ہے.
گوہر آباد کے لوگ ملنسار، تعلیم یافتہ، مہذب اور مہمان نواز ہیں۔ شادی بیاہ بہت سہل ہے۔ لوگ دیندار اور صلح جو ہیں۔ قدیم زمانے میں اجتماعی شادیاں ہوتی تھیں جن کا اپنا ایک لطف ہوتا تھا. سماج نے طے کر رکھا تھا کہ انفرادی کوئی شادی نہیں ہوگی. شاید یہ رسم 1960 تک باقاعدہ چلتی رہی. دعوت ولیمہ وغیرہ سب ساتھ ہوتا تھا. اب بھی ایک ساتھ شادیوں کا رواج ہے تاہم پہلے کی طرح نہیں. کسی ایک دن شادی کی تاریخ طے کرکے درجن دو درجن شادیاں ساتھ ہوتی ہیں مگر ولیمہ اور دیگر رسوم انفرادی ہوتے ہیں. پہلے کی اجتماعی شادیوں میں ہر چیز اجتماعی ہوتا تھا.
ان سماجی اقدار کا ذکر آج بھی بڑے بوڑھے شاندار انداز میں کرتے ہیں. گوہرآباد کا جرگہ سسٹم صدیوں سے رائج ہے. کسی زمانے میں پورے گلگت بلتستان کے لئے آئیڈیل جرگہ سسٹم تھا، زمانے کے تفاوت نے اس سسٹم کو تہہ و بالا کر دیا ہے تاہم آج بھی جرگہ سسٹم اور نمبرداری کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ بڑے بڑے مسائل حل کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کررہا ہے.
گوہرآباد میں آبشاروں، چشموں اور گلیشئرز کا شفاف پانی وافر مقدار میں ہے مگر نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے وسیع اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے اور فصلیں قلت آب کا شکار ہیں.
تاریخی اور ثقافتی ورثہ:
گوہرآباد کا تاریخی ورثہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں موجود قلعے، جو “شکارے” کہلاتے ہیں، تین منزلہ عمارتیں ہیں جن کی تعمیر میں لکڑی اور چھوٹے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ کئی صدیاں گزرنے کے بعد، آج بھی یہ قلعے سالم ہیں. اسی طرح قدیم زمانے کی بنائی ہوئی کچھ قبریں بھی تعمیراتی شاہکار ہیں. تعمیراتی لکڑیوں سے بنی ان قبروں کی عمارتیں شاندار کارنگ کا مظہر ہیں. یہ زیارتیں اور قلعے گوہرآباد کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں اور اسے علاقے کے دیگر ثقافتی ورثے سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان قلعوں کا تحفظ اور دستاویزی کام ان کے معدوم ہونے سے بچا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے تاریخی معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے اس عظیم ورثہ کو بچانے کے لیے متحرک نہیں.
گوہرآباد کا عجوبہ ہپرنگ :
گوہرآباد میں “ہپرنگ” نامی ایک عجوبہ بھی ہے، جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں، اسطوراۃ اور روایات موجود ہیں۔ یہ ایک بڑی کھوہ ہے، جسے مقامی لوگ جنات اور پریوں کے مسکن کے طور پر جانتے ہیں. ہپرنگ سے متعلق کئی دیومالائی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ ہپرنگ کا پانی دریائے سندھ میں جا گرتا ہے، اور اگر اسے سیاحتی مرکز کے طور پر ترقی دی جائے، تو یہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ گوہرآباد کی چراگاہوں تک اگر روڈ بنایا جائے تو یہاں کی خوبصورتی دنیا کے سامنے آجائے. پیدل چل کر ان حسین مناظر اور قدرتی رعنائیوں تک پہنچنا مشکل ہے. ہوائی جہاز کے سفر میں ان کا کچھ نظارہ ہوجاتا ہے.
قدرتی وسائل اور جنگلات:
پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ جنگلات گوہرآباد میں پائے جاتے ہیں، جن میں کائل،فر،چیڑھ،دیار،بنئی،کاؤ، صنوبر، مورپنگ، اور قسم ہائے قسم درخت وافر مقدارمیں موجود ہیں۔ کئی اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی وافر پائی جاتی ہیں.
گوہرآباد میں جنگلات کا وسیع رقبہ ہے. ان جنگلات میں برفانی ریچھ، مارخور، ہرن، شاہین، چکور، بٹیر، خرگوش، بھیڑیا، لومڑی، برفانی چیتا اور دیگر جنگلی حیات کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان جنگلات کا تحفظ اور مناسب طریقے سے استعمال علاقے کی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔پورے گوہرآباد میں اب تک جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ موجود نہیں. جنگلات کی کٹائی اور جنگلی جانوروں کا شکار بغیر کسی رکاوٹ کے کیا جاتا ہے.
گوہرآباد کی زمین زرخیز ہے اور یہاں گندم، جو، مکئی، آلو، پیاز، اور دیگر فصلیں بڑی مقدار میں اگائی جاتی ہیں۔ گوہرآباد میں چلغوزے کے درخت بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، جو علاقے کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مال مویشی بھی یہاں کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہیں. گوہرآباد کی معیشت میں اہلیان گوہرآباد کا بڑی سرکاری پوسٹوں اور عمومی سرکاری ملازم ہونا بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے. گوہرآباد کے لوگوں بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے نوکری پسند ہیں. کاروبار کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے.
گوہرآباد کی چراگاہیں :
گوہرآباد کی درجنوں بڑی چراگاہیں موسم گرما میں جانوروں سے بھر جاتی ہیں۔ گوہرآباد کی مشہور چراگاہوں میں مارتل، کھلیمئی ، سگھر،بھری، چھُلو ، ہُومل، سلومن بھوری ، مطیرا، دساہ ، چانگھا، دروگاہ، ملپٹ ، جبار دار، مٹھاٹ اور تتو شامل ہیں جہاں موسم سرما میں لاکھوں مال مویشاں چرتے ہیں۔ اور جنگلی حیات کا بہتات ہے.
سیاحت کی امکانات:
گوہرآباد میں سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ “فیری میڈوز ” نانگا پربت، اور “ہپرنگ” جیسے مقامات بین الاقوامی سیاحتی دلچسپی کے مراکز بن سکتے ہیں۔ اگر ان مقامات کو بہتر طریقے سے ترقی دی جائے اور سیاحتی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنایا جائے، تو یہ علاقے کی معیشت کو بڑھا سکتے ہیں۔ گوہرآباد کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی ورثہ سیاحوں کے لئے بڑی کشش کا باعث بن سکتا ہے۔ فیری میڈوز اور نانگا پربت میں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے تاہم سینٹرل گوہرآباد آج بھی ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ سے یکسر محروم ہے.
گوہرآباد کے سینکڑوں مسائل ہیں، تاہم مختصراً کچھ مسائل ذکر کیے دیتا ہوں.
نظام آب پاشی:
سینٹرل گوہرآباد میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے، جس سے زرعی سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں. کئے عشرے پہلے پانی کا ایک کول/ نہر بنایا گیا تھا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. دہگر نالوں میں پانی وافر مقدار میں ہے مگر نظام آب پاشی صدیوں پرانا ہے. نہری سسٹم نہیں بنایا گیا ہے. جس کی وجہ سے پانی ضائع جاتا ہے اور زمینیں بنجر پڑی رہتی ہیں.
برابری کے مالکانہ حقوق :
کچھ قبائل اور برادریاں اقلیت میں ہیں. ان کو برابری کے مالکانہ حقوق میسر نہیں. یہ ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی مسائل :
تعلیمی مسائل بہت پیچیدہ ہیں. عشرہ پہلے ڈرنگ داس میں کالج منظور ہوا تھا جو بعد میں ہائی سیکنڈری سکول میں تبدیل کرکے ہائی سکول گوہرآباد کے ساتھ بلڈنگ بنا دی گئی مگر اب تک نظام نہیں چلایا جاسکا. پرائیویٹ سکول سسٹم بھی ناپید ہے. رائیکوٹ اور تھلیچی میں بھی سرکاری سکول سسٹم بربادی کا شکار ہے.
وادی گوہرآباد میں انفراسٹرکچر کے مسائل کی فہرست درج ذیل ہے:
سڑکیں اور پل:
روڈ کی بناوٹ اور مواصلات کی سہولتوں میں کمی وادی گوہرآباد کا اہم مسئلہ ہے۔ عالمی سیاحتی پوائنٹ فیری میڈوز کا روڈ بھی خستگی کا شکار ہے جب بھی ٹوٹ جاتا ہے یا بارشوں کا نذر ہوتا ہے تو مقامی لوگ اپنی مدد آپ بناتے ہیں. دیگر نالوں میں بھی صورتحال بہت افسوسناک ہے.
گوہرآباد کا مرکزی پل موت کا کنواں بنا ہوا ہے. گیس کا پل بھی خستہ ہے. وادی کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے پل ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.
شعبہ صحت :
صحت کی سہولتوں کی کمی، اور معیاری صحت کی خدمات کی عدم فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سینٹرل گوہرآباد کا دس بیڈ ہسپتال بھی چیخ چیخ کر محکمہ صحت کو پکار رہا ہے. باقی ویٹرنری ہسپتال بھی خانہ پوری کہ حد تک موجود ہے.
بجلی: بجلی بھی ایک سنگین ایشو بن چکا ہے.
گوہرآباد کے جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ بھی ضروری ہے. ٹمبر مافیا کی وجہ سے علاقے کے جنگلات کو نقصان پہنچا ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں اور سماجی و ثقافتی این جی اوز بھی ان مذکورہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ میڈیا میں بھی شعوری مہم کا آغاز کیا جاسکتا ہے.
خلاصہ کلام :
گوہرآباد، اپنی تاریخی اہمیت، ثقافتی ورثے اور قدرتی خوبصورتی کے باوجود، بنیادی سہولیات کی کمی اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر گوہرآباد کے تاریخی ورثے اور قدرتی وسائل کو محفوظ بنایا جائے اور سیاحتی امکانات کو بڑھایا جائے، تو یہ علاقے کی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔