الحمدللہ! اس سال چار سو کے لگ بھگ پھلدار اور پھولدار درخت لگائے ہیں. شجرکاری کی یہ مہم جنوری میں شروع کرکے فروری کے آخر تک تکمیل کو پہنچایا.اگلے سال بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا.
سال 2022 کے شروع میں پڑی بنگلہ شفٹ ہوا تھا. یہی پر اپنے زیر تعمیر مکان، مسجد اور تعلیمی ادارہ کے دائیں بائیں ایسی گنجائش نکالی ہے کہ چار پانچ سو درخت اس سال لگائے جاسکتے تھے جو لگا لیے گئے. درخت لگانے کے اس کار خیر میں جناب عبدالخبیر صاحب ڈائریکٹر زراعت دیامر ڈویژن، ڈاکٹر شاہ زمان صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر(ریسرچ) محکمہ زرعت، مولانا غلام صادق، برادرم مولانا امین نے پھلدار درختوں کی مَد میں جبکہ محکمہ فارسٹ اور اپنے شاگر حسنین اور اسکے بھائی عمرجان نے سفیدے عنایت کیے. آپ سب کا شکریہ. آپ احباب کا تعاون نہ ہوتا تو یقیناً یہ درخت نہیں لگائے جاسکتے تھے اور شجرکاری کی یہ مہم ادھوری رہ جاتی.
آج کی محفل میں ہم شجرکاری کا دینی حکم، سنت و ثواب اور اس کے طبی و سائنسی پہلوؤں پر مختصر بات کریں گے تاکہ اس کار خیر میں مبتلا تمام احباب اور ادارے مزید عزم کیساتھ اس عمل خیر کو جاری رکھ سکیں. ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور نہ ہی ان اچھے کاموں کے دینی و دنیاوی فوائد بتاتے ہیں. جس کا بہت زیادہ نقصان ہوجاتا ہے.لوگ دینی و دنیاوی اعتبار سے مایوس ہوجاتے ہیں.
درخت لگانا ایک ایسی سنت ہے جس میں انسان، حیوان اور چرند پرند کیساتھ درندوں کا بھی فائدہ ہی فائدہ ہے. درختوں کی افادیت سے کوئی ذی روح مخلوق خالی نہیں. درختوں کے طبی، مادی اور دیگر سینکڑوں فوائد ہیں.
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.
“بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اُگائے ، تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگا سکتے ۔ کیا ( پھر بھی تم کہتے ہو کہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں ! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منہ موڑ رکھا ہے ۔”.(نمل: 60).
ذرا ملاحظہ کیجئے. اللہ تعالیٰ شجرکاری کے مراحل سے اپنی توحید، خلاقیت و صناعیت اور عظمت کی نشانیاں اور دلائل بیان فرمارہے ہیں. اگر ہم غور و فکر کریں تو اللہ ہی ہے جس نے ہمارے لیے کھیتیاں بنائی، باغات اُگائے، پھلدار اور پھولدار درخت پیدا کیے، ان میں ذائقے ڈالے، پھر دریاؤں، سمندروں اور بادلوں و برف اور دیگر ذرائع سے ان درختوں کے لئے پانی کا انتظام فرمایا. انتہائی سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ شجرکاری خدائی فعل ہے. شجرکاری میں حصہ لینے والا ہر انسان برابر ثواب اور تکریم کا حقدار ہے.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے۔“(صحیح بخاری)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان درخت یا کھیتی لگائے، اور اس میں سے کوئی انسان، درندہ، پرندہ، یا چوپایا کھائے تو وہ اس کےلیے صدقہ بن جاتا ہے۔
اب طبی و سائنسی ماہرین کی طرف سے پیش کردہ حقائق اور تفصیلات کا کچھ مختصر خلاصہ پیش کرتے ہیں. ہم نے بہت ساری باتیں سنی ہوتی ہیں. کہیں اہل علم سے اور کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے.
درختوں سے ہمیں آکسیجن ملتا ہیں اس سے سانس لینے کے لیے مدد ملتی ہے. آکسیجن کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ کرونا وائرس کے دنوں میں خوب ہوچکا ہے. اور اسی طرح درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ پھولدار اور پھلدار درختوں اور جڑی بوٹیوں کے پتوں، بیچ، پھولوں اور جڑوں سے سینکڑوں قسم کی ادویات تیار کی جاتی ہیں.
درختوں سے انسانوں کے لیے ہر قسم کے غذائیت پر مشتمل فروٹس، لکڑیاں اور کاغذ مہیا ہوجاتی ہے. اور درخت جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔حیوانات کے لیے خوراک بنتے ہیں.
درختوں کے کئی حیران کن فوائد ایسے ہیں، جن سے عموما صرف نظر کیا جاتا اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ درختوں کے یہ فوائد بھی ہیں.
درختوں سے سیلاب سے بچاؤ ہوجاتا ہے. جن علاقوں میں بڑی مقدار میں درخت ہوں وہ علاقے سیلاب کی کارستانیوں سے محفوظ رہتے ہیں. درختوں کی جڑیں اضافی پانی کو جذب کرلیتی ہیں.عموما دیکھا گیا ہے کہ گھنے جنگلات میں سیلاب نہیں آتا، اور اگر میدانی علاقوں میں بھی جہاں کہیں پر زیادہ درخت ہوں، تو سیلاب آجائے بھی تو نقصانات بہت کم ہوتے ہیں.
درختوں کی وجہ سے قحط اور خشک سالی سے محفوظ رہا جاتا ہے. درختوں کے جڑوں میں جذب شدہ پانی ہوا میں خروج کرکے بادلوں کی تشکیل میں مدد دیتا ہے. اور بادل اور بارش ہی حیات انسانی ہے. درختوں سے لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کم ہوجاتے ہیں. درختوں کی جڑیں زمین کی مٹی کو روکے رکھتی ہیں جسے زمین کا کٹاؤ رک جاتا ہے اور لینڈسلائیڈنگ نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے.
اسی طرح درختوں سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوجاتا ہے. درخت زرخیزی کے ضامن ہوتے ہیں. خوشحالی آجاتی ہے. درخت مسلسل زمین کو پانی فراہم کرتے ہیں.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنگلی علاقوں اور میدانی علاقے جہاں بڑے باغ لگے ہوں،میں بارش ہوتی رہتی ہے، اگر بارش نہ بھی ہو تو وہاں کی زمین جلدی سوکھ کر مر نہیں نہیں جاتی.
درختوں کی وجہ سے شور شرابہ اور صوتی آلودگی میں کمی ہوجاتی ہے. ریل گاڑی بھی درختوں کے باغات یا جنگلات سے گزرے تو قریبی آبادیوں کو اس کا شور محسوس نہیں ہوتا، اسی طرح گھنے جنگلات کے اوپر جہازوں کا شور بھی نہیں سننے کو ملتا. درخت ان صوتی آلودگیوں کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں. صوتی آلودگیوں کو روکنے میں اس کی شاخیں اور پتے بھی کردار ادا کرتے ہیں.
درختوں کے ماہرین کے آراء سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے کہ ہمیں تعلیمی اداروں اسکول کالج، مسجد و مدرسہ اور دیگر پبلک مقامات کے ارد گرد اور پرشور مقامات جیسے گراونڈ، روڈ، آرمی اور پولیس کے چھاؤنیوں، گنجان محلوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ انسانوں کی صوتی آلودگی درخت جذب کرکے ماحول کو پرسکون بناسکے اور
لوگوں کی خوشگوار صحت اور ماحول مل سکے. یہ طے شدہ بات ہے جہاں زیادہ درخت ہونگے وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند ہونگے اور بیمار بہت کم ہونگے.
درختوں کی موجودگی سے ڈپریشن، تناؤ، ایگزائٹی کم ہوجاتی ہے اور جسمانی اور ذہنی سکون ملتا ہے اور انسان میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھ جاتی ہیں.
آپ بھی درخت لگائیں. اس میں دنیا و آخرت کے صرف اور صرف فوائد ہیں. درخت لگانا مشکل کام نہیں تاہم پھلدار درختوں کی نگہداشت کچھ سال تھوڑی مشکل ہے. محکمہ ذراعت اور جنگلات سے بھی درخت وصول کیے جاسکتے ہیں. پڑی بنگہ میں درختوں کا بڑا وسیع کاروبار ہے. لوگ سالانہ کروڈوں کی تعداد میں شجرکاری کرتے ہیں اور وہی درخت سال بعد فروخت کرکے اربوں کما رہے ہیں. تمام زمینوں پر پھلدار اور پھولدار درختوں کی شجرکاری کی جاتی ہے. سال بھر محنت کرکے اگلے سال فروخت کر دیے جاتے ہیں. ایک محتاط اندازے کے مطابق پڑی بنگلہ سے کروڈوں درخت گلگت بلتستان میں تقسیم ہوتے ہیں. یقیناً اربوں کماتے ہونگے. یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شجرکاری عظیم صدقہ و ثواب کیساتھ شاندار کاروبار بھی ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟.