عارف سعید بھائی ہمارے محسن ہیں۔جب بھی اسلام آباد آتا ہوں تو وہ ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں۔اور کچھ اور احباب کو بھی مدعو کرتے ہیں اور پھر شاندار مکالماتی محفل جمتی ہے۔ہنسی مزاح کیساتھ بہت سارے موضوعات زیربحث آتے ہیں۔ہمارے زاہدعبدالشاہد صاحب ہر محفل میں میر محفل ہوتے ہیں۔
آج بھی انہوں نے اپنے گھر میں ایک شاندار ضیافتی محفل سجائی جس میں ذیشان پنجوانی اور استاد زاہد عبدلاشاہد بھی تھے۔بہت سارے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔سب سے زیادہ افغان ایشوز پر بات ہوئی۔عارف بھائی کئی سالوں سے افغانستان میں کاروبار کررہے ہیں۔ان کی فرم ہے۔بہت قریب سے طالبان اور سابق افغان حکومت اور بین الاقوامی دنیا کے افغان امور کو دیکھا ہے اور ان کیساتھ کام کیا ہے۔وہ خود بھی کاروباری دنیا کے نہ تجربہ کار ہیں بلکہ تجارت و معیشت میں اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔
افغانستان پر ان کی رائے انتہائی معقول اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے۔آج جو کچھ ہمارے درمیان زیر بحث رہا اس کو لکھنے کی بجائے خود عارف سعید بھائی کی دو تحاریر افغانستان پر ہیں۔شیئر کررہا ہوں۔وہ لکھتے ہیں:
“افغانستان کے معاملے پر کچھ نہیں لکھا۔
کیونکہ وہاں 2005 سے کاروبار کر رہا ہوں اور اس تجربے کی بنیاد پر بہت کچھ لکھ سکتا تھا لیکن گریز کیا۔ کاروباری لوگوں کی یہی مجبوری ہوتی ہے کہ نا تو حکومت کی حمایت یا مخالفت میں کچھ لکھ یا بول سکتا ہے اور نا ہی حکومت مخالف دھڑوں کے بارے میں۔
اب چونکہ طالبان حکومت میں آ چکے ہیں تو انہیں کچھ مشورے ضرور دوں گا۔
ایک یہ کہ سیکورٹی فورسز، وزارتوں اور حکومتی اداروں میں وہی سٹاف اور بیوروکریٹس اپنے ساتھ رکھیں جو پچھلی حکومت میں تھے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو کچھ افغانستان کو دیا ہے اس میں واضح نظر آنے والی چیزوں میں (1) ان سیکورٹی فورسز، حکومتی وزارتوں اور اداروں میں بہترین سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (SOPs) ہیں اور (2) وہ ٹرینڈ سٹاف اور بیوروکریٹس ہیں جو ان سیکورٹی فورسز، وزارتوں اور اداروں میں کام کر رہے تھے۔
دوسرا یہ کہ خواتین جہاں جہاں کام کر رہی تھیں انہیں کام کرنے دیں۔ کیونکہ افغانستان میں اکثریتی کام کرنے والی خواتین بغیر مجبوری کے نوکریاں نہیں کر رہیں بلکہ انتہائی مجبوری میں کام کر رہی ہیں۔ افغانستان میں چالیس سال جنگوں نے ہزاروں گھرانوں میں مردوں کی خلاء چھوڑی ہے جس کی وجہ سے خواتین کام کرتی ہیں اور اپنوں کے لیے روٹی کماتی ہیں۔ بلکہ ایسی خواتین کے لیے روزگار کے مواقع زیادہ کرنے چاہئیں۔ اگر طالبان کو کسی خاص جاب پر خاتون قابلِ قبول نہیں تو اس خاتون کو نوکری سے نکالنے کی بجائے اسے کسی اور جگہ رکھے لیکن بے روزگار نا کرے۔ خواتین کے لیے ڈریس کوڈ وضع کیا جا سکتا ہے اور بہترین درمیانی راستہ یہی ہے کہ عبایا کے ساتھ چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت دے۔ ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ ہرات اور کندھار میں بینکوں میں کام کرنے والی خواتین کو کام پر آنے سے روک دیا گیا ہے۔ اگر مقامی طالبان نے یہ کام صرف اضطراری اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کیا ہے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ اقدام مستقل نہیں ہونا چاہیے۔ انہی اقدامات کی وجہ سے عوام میں منفی جذبات اٹھتے ہیں۔ ایک ویڈیو گردش میں ہے جس میں طالبان کا ایک عہدیدار خواتین ڈاکٹرز اور نرسز کو کام پہ آنے کا کہہ رہے ہیں لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا طالبان کا یہ رویہ صحت اور تعلیم کے شعبے کے علاوہ باقی تمام شعبوں کے لئے بھی ہے کہ نہیں۔
تیسرا یہ کہ ہر چیز کو فوراً اسلامائز کرنے سے گریز کریں، خصوصاً معیشت اور تعلیم کو۔ کیونکہ معیشت کو اس سے بریک لگتا ہے جس کی وجہ سے پوری ملکی معیشت پر انہتائی منفی اثر پڑتا ہے اور پہلی بربادی جو آتی ہے وہ لوگوں کی بے روزگاری کی شکل میں آتی ہے، ہم خود پاکستان میں موجودہ حکومت کے پہلے سال یہ بربادی دیکھ چکے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت حکومتی یونیورسٹیوں کے علاوہ پچاس سے زیادہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں جن میں لاکھوں طلباء پڑھتے ہیں، ان یونیورسٹیوں کو اسی طرح چلنے دیں جس طرح چل رہی ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ نصاب میں معمولی تبدیلی کی جا سکتی ہے، وہ بھی اگر ضروری ہو تو۔ موجودہ سلیبس بھی غیر اسلامی نہیں البتہ طالبان اگر چاہیں تو کچھ اسلامی تعلیمی مواد بعد میں شامل کر سکتے ہیں۔ ایسی خبریں ہیں کہ جو سکولز کھل چکے ہیں وہاں طالبان نے اپنا نصاب نافذ کر دیا ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس نصاب میں عصری علوم کا نصاب اس معیار کا ہے کہ نہیں جس معیار کا نصاب پچھلی حکومت میں پڑھایا جاتا تھا۔
چوتھا یہ کہ معیشت کو فوراً بحال کرے۔ اگر معیشت اسی طرح رکی رہے جس طرح اب ہے تو عوام کو تو جو مسائل ہوں گے وہ تو ہوں گے لیکن طالبان حکومت کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا خصوصاً حکومت کی ٹیکس آمدنی کم ہوگی اور آگے چل کر حکومتی امور اور اخراجات کے لئے بہت بڑا بجٹ خسارہ پیدا ہو سکتا ہے۔ طالبان ٹیکس کو کم نا کریں کیونکہ کاروباری طبقہ اور عوام موجودہ ٹیکس ریٹس کے ساتھ عادی ہو چکا ہے لہذا ٹیکس دینے میں عوام کو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بات اس لئے لکھی کہ چند دن پہلے کسی نے بتایا کہ زمینی بندرگاہیں جو طالبان کے قبضے میں آ چکی ہیں وہاں طالبان ٹرک مالکان اور تاجروں سے جو ٹیکس لے رہے ہیں وہ افغان حکومت کے ٹیکس سے بہت کم ہے۔ اس وقت چونکہ طالبان کی حکومت نہیں تھی اور حکومت کے مجموعی اخراجات بھی ان کی ذمہ داری نہیں تھی تو وہ ٹھیک ہو سکتا تھا لیکن اب انہیں پوری حکومتی اخراجات کا سامنا ہے لہذا ٹیکس کم کرنا اپنے لئے مسائل پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
پانچواں یہ کہ بین الاقوامی امداد اور بین الاقوامی امدادی اداروں کو اسی طرح آنے دیں جس طرح پہلے آتے تھے۔ افغان حکومت کی ٹیکس آمدنی اتنی نہیں کہ ساری حکومتی اخراجات پوری کر سکے تو بجٹ خسارہ بیرونی امداد سے پورا ہوتا تھا۔ اس میں سب سے بڑا حصہ آمریکہ سے آتا تھا جو کہ سالانہ تین ارب ڈالر سے زیادہ بنتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ طالبان حکومت امریکیوں کے ایسے شرائط پوری کر سکیں گے یا نہیں جو اس امداد کے ساتھ مشروط ہیں لیکن طالبان کو ہر کوشش کرنی چاہئے کہ یہ امداد اور اس کے ساتھ امدادی اداروں کے کام نا رکیں۔ اس امداد میں اکثریتی پروجیکٹس افغانستان کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ مثلاً ایک امریکی پرائیویٹ ادارہ امریکی حکومتی ادارے یعنی USAID کی 56 ملین ڈالر مالی مدد سے ملک کے ڈیری فارمز کے ساتھ کام کر رہا ہے تا کہ جانوروں کی دیکھ بھال اور اعلی کوالٹی دودھ کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ایسے پروجیکٹس افغانستان جیسے غریب ملک کے لیے کتنے اہم تھے اور ایسے درجنوں پروجیکٹس چل رہے تھے۔ یہ پروجیکٹس بند نہیں ہونے چاہئیں۔
آخری بات یہ کہ افغانستان میں اس وقت اکثریتی آبادی انتہائی خوف اور مایوسی میں مبتلاء ہے۔ طالبان کو عوام کا یہ خوف دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ عوام میں مایوسی بڑھے گی، اور طالبان مخالف منفی جذبات مزید ابھریں گے جو آگے چلکر کسی اندرونی جنگ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، اور افغان عوام مزید کوئی جنگ نہیں چاہتے۔ لہٰذا اس خوف کو دور کرنے کے لیے فوراً اقدامات کرنے ہوں گے۔”
افغانستان سے انڈیا کے انخلا پر لکھتے ہیں:
افغانستان سے ہندوستانیوں کے انخلاء پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں، یہ لوگ دوبارہ آئیں گے۔ ظاہر ہے کہ پچھلی افغان حکومت کے ساتھ جتنے بھی بین الاقوامی معاہدے ہوئے ہیں ان معاہدوں کی پاسداری طالبان بھی کریں گے۔ اور یہ بات بار بار سہیل شاہین اور دوسرے ترجمان کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی برادری غیر مکمل پروجیکٹس مکمل کرے۔
کیا طالبان یہ غلطی کر سکتے ہیں کہ کوئی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے اور طال-بان انہیں بھگائے۔ اور کیوں کریں گے۔ طال-بان چاہ۔بہار بندرگاہ جیسے پروجیکٹس کو مزید آگے لے کے جائیں گے۔ اپنی حکومت بننے کے بعد طالبان کے اپنے ترجیحات ہوں گے نا کہ پاکستان کی مرضی کے۔
وہاں سارے کام کرنے والے ہندوستانی انٹیلیجنس کے ایجنٹ نہیں تھے، بلکہ عام کاروباری اور نوکری کرنے والے تھے۔ بہت سی بھارتی کمپنیوں کو انٹرنیشنل فنڈنگ ایجنسیوں کی طرف سے بین الاقوامی مسابقت میں کنٹریکٹ ملے تھے، کیوں کہ کچھ سیکٹرز میں ہندوستانی کمپنیوں کے کام کا معیار بہت اعلیٰ ہے، خصوصاً بجلی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ البتہ کچھ ہندوستانی بھارت کی طرف سے افغانستان میں سٹریٹجک سرمایہ کاری کے پروجیکٹس پر کام کر رہے تھے۔
اور ہاں ہندوستانیوں کی جہازوں میں بیٹھ کر نکلنے کی تصاویر پر بھی بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔ کم و بیش ایسے ہی مناظر پاکستان کمیونٹی کے بھی تھے جو افغانستان سے بھاگ نکلنا چاہ رہے تھے۔ اسی بھگدڑ میں 16 آگست کو ایک پاکستانی جو کہ کاردان یونیورسٹی میں لکچرار تھا کو گولی بھی لگی۔ لہذا ہر معاملے پر دفاعی تجزیہ کار بننے کی ضرورت نہیں۔ فی الحال تمام غیر ملکی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے افغانستان سے نکل رہے ہیں نا کہ طال بان یا کسی اور کے خوف سے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بھارت کو آپ دشمن سمجھتے ہوں گے باقی اسلامی ممالک نہیں۔ بھارت میں بھی سترہ کروڑ مسلمان رہتے ہیں، مشہور دینی علماء رہتے ہیں۔ باقی اسلامی دنیا آپ کی طرح نہیں سوچتی۔ عرب امارات اور سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک کی ہندوستان کے ساتھ تعلقات دیکھیے۔
ہمیں سنجیدہ طور پر سوچنا چاہیے کہ آج بھارت اربوں ڈالر کی سٹریٹجک انوسٹمنٹ کر رہا ہے اور ہم اب بھی ایک بھکاری قوم ہیں۔”۔