(ایک غم زدہ بیٹے کی کہانی)
دنیا کے خوبصورت الفاظ میں سے ایک لفظ ” ماں ” ہے۔ اس لفظ کو سن کر ہی انگ انگ میں محبت کی مٹھاس رچ بس جاتی ہے۔ زبان سے حلق اور پھر دل تک شیرینی اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ۔ماں کا رشتہ ہر قسم کی غرض ،مکاری اور دھوکے سے پاک ہوتی ہے جس میں سوائے شفقت اور مہربانی کے اور کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہوتی ۔اس رشتے کے تقدس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں زبان گونگی ہو جاتی ہے اور خیالات کا سمندر خشک ہو جاتا ہے لیکن تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہو پاتا ۔پروردگار نے کن عناصر کے ملاپ سے اس پیارے رشتے کو تخلیق کیا ہو گا ؟۔ یقینا اپنی کمال خلاقیت کا اظہار کرنے اور اپنی محبت کی جھلک دکھانے کے لیے ہی ماں کی تخلیق کی ہو گی۔ ماں دنیا میں اللہ کی محبت اور رحمت کا حسین عکس ہےجو اولاد کو اپنے پیار کی چادر میں لپیٹے رکھتی ہے ،ان کی محبت میں پوری دنیا اور اپنی جان عزیز بھی قربان کرنے کو تیا ر رہتی ہے،اولاد کی پیدائش سے پرورش تک کا عمل آسان نہیں ہوتا جس کی تصدیق میں قرآن پاک میں کہا گیا۔۔۔ ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن فصالہ فی عامین۔۔۔
ترجمہ۔۔ اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کی طرف کہ جس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو برس تک دودھ پلانے کا فریضہ انجام دیا ۔۔۔۔۔۔
قرآن واضح الفاظ میں بتاتا ہے کہ انسان پر والدین اور خاص کر ماں کا کتنا حق ہے۔۔جہاں لفظ ماں آئے تو سمجھ لینا کہ ادب کا مقام آگیا ۔اس پاک ہستی کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان سکون کی دولت کے لیے ترسے اور زمانے کی تلخیوں سے دل برداشتہ ہو تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر ساری پریشانیوں ،غموں اور دکھوں کو بھول کر راحت محسوس کرے
اس کار گاہ زیست میں گھبرائے جب بھی دل
سر رکھ کے ماں کی گود میں سو جانا چاہیے
ماں کی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اولاد کے تمام دکھوں کو بہا کر ان میں جینے کی امید پیدا کرتا ہے ۔حالات کیسے ہی سخت کیوں نہ ہوں تکالیف ہر طرف سے انسان کو اپنی گرفت میں لے لیں ،زمانے کی مصیبتیں پاوں کی زنجیر بنیں جب وہ ماں رب کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے تو زمانے کی گردشیں رک جاتی ہیں جب وہ دعا کے لیے اپنے ہاتھ بلند کرتی ہے تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی جڑوں سمیت اکھڑجاتی ہے ۔سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنی دعاوں کی زادراہ ساتھ کر دیتی ہے اور جائے نماز پر کھڑی رہ کر خالق سے گڑگڑاتی ہوئی ہماری خیریت سے واپسی کی دعا کرتی ہے ۔اس وقت جو اس ماں کے دل پر گزرتی ہے وہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ،ہماری واپسی کے بدلے اگر ان کی جان بھی مانگی جائے تو خوشی سے وہ بھی پیش کرے گی ،انہی دعاوں کی برکت سے منزل تک بخیر وعافیت پہنچنا ہمیں نصیب ہوتا ہے
گردشیں لوٹ جاتی ہیں میری بلائیں لے کر
گھر سے جب نکلتا ہوں میں ماں کی دعائیں لے کر
ماں کے ایثار و قربانی اور خلوص کا بیان لفظوں میں بیان ہی کیسے ہو سکتا ہے جو اپنا کھانا پینا ،اپنی توانائی ۔اپنا خون اپنی دھڑکنیں اور سانسیں تک اپنی اولاد سے بانٹتی ہے ۔اپنا وجود کاٹ کر اپنی خوشیاں چھوڑ کر ،اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اولاد کی خواہشوں اور ارادوں میں ان کی مدد گار ہوتی ہے ۔اللہ پاک نے بھی اپنی محبت کوبیان کرنے کے لیے ماں کی محبت کی مثال دی ہے کہ۔۔۔ ”اللہ ستر ماوں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔۔”
نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”ماں کے قدموں تلے تمھاری جنت ہے،”‘
ان ارشادات کی روشنی میں ماں کی عظمت اور مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس ہستی کی محبتوں کا مول کیا ہو گا جو خود بھوکی رہ کر بچے کو کھلاتی ہے سرد راتوں میں بچے کے سکون کی خاطر کئی بار اٹھتی ہے یا سرے سے سوتی ہی نہیں ۔اگر بچہ بستر گیلا کرے تو خود گیلی جگہ سو کر اپنے لخت جگر کو خشک جگہ سلاتی ہے ۔ اس کی خاطر اذیت پر اذیت سہتی اور حالات کی سنگینیوں سے لڑتی ہے ۔غموں کے تیروں کو اولاد تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے سینے کی ڈھال پہ روکتی ہے ،حالات کے گرم وسرد کو اپنے وجود میں جذب کرتی ہے تاکہ اولاد محفوظ رہے۔ ان کے لیے اگر جان کا بھی سودا کرنا پڑے تو کر جاتی ہے ۔خود روکھی سوکھی کھائے گی ،ننگے پیر چلے گی،پیوند لگے کپڑے پہن کرصبر شکر بجا لائے گی لیکن اپنی اولاد کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرے گی ۔ ماں حا لات کی چکی میں ایک بار نہیں کئی بار پستی ہے ۔معاشرتی اور معاشی پریشانیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے لیکن اولاد کو احساس کمتری کا شکار ہونے نہیں دیتی ۔تنگ دستی اور معاشی ابتری کی وجہ سے اگر کھانا کم پڑ جائے تو یہ کہہ کر کھانے سے دست بردار ہوتی ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔ سارا دن امور خانہ داری میں لگی ہوتی ہے مہمانوں کی خاطرداری سے لے کر عزیزواقارب ،گھر کے افراد اور اولاد تک کی خدمت کرتی ہے لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔
دن بھر کی مشقت سے بدن چُور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
ان کے تقدس بھرے چہرے پر رب کی رضا جھلکتی ہے۔ ان کے ہونٹوں پہ ملکوتی مسکراہٹ ہمیشہ رقص کرتی ہے ،جن کی آنکھوں میں صلہ رحمی کی چمک اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔جن کی پیشانی پہ سجدوں کا نور روشنی بکھیرتا ہے ۔جن کی باتوں میں ممتا کی مٹھاس اور دل میں اللہ کی رحمتیں بھری ہوتی ہیں،جن کے ہاتھوں میں نرمی،قدموں میں جنت اور آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ہے۔ جن کی عظمت کا اعتراف خالق نے خود کیا ہے ۔جنھیں اللہ پر ایمان نبیﷺ کی پیروی کے بعد فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا حقدار قرار دیا گیا ہے۔والدین اور خاص کر ماں کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھنے والے کو مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ ماں ایسا درخت ہے جس کی ٹھنڈی چھاوں میں اولاد زمانے کا دکھ بھول جاتی ہے ۔بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے،مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے ،لفظوں کا استعمال سکھا کر بولنے کے فن سے آگاہ کرتی ہے۔
انہیں سے بولنا سیکھاتھا ہم نے
وہی جو بزم میں کم بولتے تھے
ماں ہی سے ہر گھر جنت ہے۔جس گھر میں ماں سلامت ہو اس کے افراد کو کسی اور جنت کی طلب نہیں ہوتی ۔جہاں ماں کی تلاوت کی صدا گونجے ،جہاں جائے نماز ان کے سجدوں سے آباد ہو ،جہاں بیمار کا علاج آیات قرآنی اور آب زم زم سے کیا جائے ، جہان نظر اتارنے کے لیے دانہ اسپند (اسپاندور) کی دھونی دی جائے،جہاں کسی کو رخصت کرنے سے پہلےدورکعت نفل کی ادائیگی لازمی ہو ،جہاں قرآن کے سائے میں کسی کو رخصت کیا جائے تو سمجھ لو وہی جنت ہے ۔ دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے سب سے حسین اور قیمتی تحفہ ماں ہے جو بچے کی تمام تر شرارتوں کو کتنی اسانی سے برداشت کرتی ہے ۔ دوسرے بچوں کی طرح میری شرارتوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے ،جب بھی میں کوئی نئی شرارت ایجاد کر کے اپنی ماں کو تنگ کرتا تو کہتی کہ ”بھاگ جاو۔۔۔ ورنہ میں ماروں گی۔۔۔” لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ماں نے مجھے کبھی مارا بھی ہو۔۔ کاش ۔۔۔! ایک بار ہی سہی میری ماں مجھے مارتی اور میں واپس جا کر ان سے لپٹ جاتا۔۔۔۔ ان کے ہاتھ مارنے یا کسی کو تکلیف دینے کے لیے بنے ہی نہیں تھے۔وہ تو دعا میں اٹھنے کے لیے،خدمت کرنے کے لیے اور رحم سے سر پر پھیرنے کے لیے بنے تھے۔ ان کی زبان سے اونچی آواز کبھی کسی نے نہیں سنی وہ زبان کڑوی باتوں اور سخت الفاظ سے کبھی آشنا ہی نہیں ہوئی۔ سخت لہجہ اور لفظ تو غصہ کے وقت استعمال ہوتا ہے میری ماں کو غصہ آتا ہی نہیں تھا ویسے حیرت کی بات ہے۔۔۔۔۔شاید ان کے اندر ردعمل اور غصے کا سسٹم تھا ہی نہیں یا انہیں اپنے اعصاب پر بے پناہ کنٹرول تھا جس کی وجہ سے وہ کسی کو تلخی دینے کی وجہ کبھی نہیں بنی ۔ صبر وشکر کا مجسمہ ،رب کی رضا پر راضی رہنے والی میری ماں میرا حوصلہ اور اعتماد تھی جس کی دعاوں نے بڑے بڑے مصائب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں،کئی بار مشکل حالات آئے،میری جان کو بھی خطرہ لاحق ہوا،بیماری نے بھی میرا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی ملازمت بھی خطرے میں پڑ گئی لیکن ہمیشہ مجھے اس بات کا یقین رہتا کہ یہ مصائب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،نہ بیماری مجھے شکست دے سکتی ہے نہ مخالفین میرا بال بیکا کر سکتے ہیں کیونکہ جب تک میری ماں سجدے میں جھکی ہے جب تک رب کے حضور ان کے ہاتھ بلند ہیں کوئی بھی غم میرے سامنے ٹکنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔ان کی دعاوں کے بھروسے بڑی بڑی مصیتوں سے ٹکرانے سے میں کبھی نہیں ہچکچایا۔۔
اس لئے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ میری ماں کی دعا رکھی تھی
شیرین نان صرف ماں نہیں تھی میری غم خوارمیری طاقت
میری رکھوالی، میرا بازو، میرا سائبان ، میری دنیا اور میرے جینے کی وجہ تھی۔ وہ گھنا سایہ تھی جو چھاوں تو دیتی ہے لیکن صلے سے بے نیاز ہوتی ہے۔ ان کی دعائیں بادلوں کو پھاڑ کر اوپر جاتیں اور قبولیت کا شرف حاصل کرتی تھیں۔ ان کی دعاوں کے طفیل میں اور میرے بیوی بچے عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔دنیا کی ہر نعمت میسر ہے کسی کی مالی مدد کر سکتا ہوں،مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہوں سب کچھ میسر ہے جس کا خواب میرے والدین نے دیکھا تھا ان ہی وجہ سے وہ خواب تعبیر میں بدل گیا ۔آج مجھے اس مقام تک پہنچانے والی طاقت اللہ کی مہربانی کے ساتھ میری ماں کی دعائے نیم شبی ہے۔۔ لیکن
ہر لمحہ تیرے بعد یہ احساس رہے گا
ہر چیز کے ہوتے ہوئے ہر شے کی کمی ہے
ماں نے ساری عمر جائے نماز پر گزار دی ،تہجد نفلی نمازیں اور روزے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھے جن کے صدقے ہم زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہو گئے۔ اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے فارغ ہو تے ہوئے اپنا وہ خزانہ بھی نئی نسل کو منتقل کر دیا جو ان کی کل کائنات تھا یعنی میری بیدائش کے وقت جو کرتا انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سی کر مجھے پہنایا تھا اسے آج تک ایک متاع عزیز کی طرح سنبھال کے رکھا تھا اب جب کی میری عمر 56 سال سے تجاوز کر گئی ہے میری ماں نے اپنا وہ خزانہ میری اولاد کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری سے ہمیشہ کے لیے سبکدوش ہو گئی۔کچھ دنوں سے ایک ڈر لگا رہتا تھا کہ میری ماں کمزور ہو گئی ہے اگر انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔
پھر میری آنکھوں نے وہ تاریک دن بھی دیکھا جب میرے لئے دعا کرنے والے ہاتھ پہلو میں دھر گئے۔ خالق کے سامنے میری زندگی اور خوشیوں کی دعا مانگنے والی آواز خاموش ہو گئی۔ میری منتظر رہنے والی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ جس چہرے پر میں نے پروردگار کی رحمتوں کا نزول دیکھا آج بھی اس پر رحمتیں برس رہی تھیں۔ وہ ہاتھ جو شفقت کی تپش سے گرم رہتے تھےآج وہ ٹھنڈے پڑ گئےلیکن اس ٹھنڈک کو چیر کر ان کی محبت میرے وجود میں سرایت کر رہی تھی۔ ان خاموش ہونٹوں پر اب بھی پر سکون دعائیں مچل رہی تھیں جنہیں اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں سن سکتا ۔ وہ قیامت کی گھڑی مجھ پر بیت گئی مجھے کچھ بھی نہیں ہوا،زندہ ہوں کھاتا پیتا ہوں لیکن میرا حوصلہ ٹوٹ گیا ہے ،میری ہمت جواب دے رہی ہے۔میری حالت اس مسافر کی سی ہو گئی ہے جو ننگے سر اور ننگے پیر صحرا میں بھٹک گیا ہو جسے پانی اور سائے کی تلاش ہو لیکن اس کا سایہ دار درخت کہیں نہیں مل رہا جس کی چھاوں میں زندگی کی تلخیوں سے میں بے خبر رہتا تھا ۔۔۔کیسے اپنی پیاس بجھاوں میرے میٹھے پانی کا چشمہ خشک ہو گیا ہے ۔ دنیا ہر طرف سے مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی محسوس ہورہی ہے ۔کون اس کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دے گا ۔۔؟ میری دنیا اجڑ گئی۔ زندگی کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔اب کون میرے لیے رب کے حضور گڑگڑائے گا ؟ کس کی آنکھیں میری منتظر رہیں گی ؟میری نظر اتارنے کے لیے اسپند کی دھونی کون دے گا۔۔ مجھے قرآن کے سائے میں رخصت کرنے والی ماں منوں مٹی تلے جا کر سو گئی ۔۔۔ میرا تھکا ہارا وجود ماں کی آغوش میں جا کر راحت محسوس کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
اے خالق کون و مکاں میری ماں کی قبر کو اپنی رحمت کے نور سے بھر دے ۔۔۔ آمین