ہنزہ نیوز اردو

معیار بدلتے دیر نہیں لگتی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی میں بہت سی چیزیں پہلے جیسی نہیں رہتیں ۔گرد وپیش کے ماحول سے لے کر ذہنی وجسمانی ساخت ،پسند اور نا پسندیدگی کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہتا ،بچپن میں کھلونے مٹھائیاں اور رنگ برنگی چیزیں دیکھ کر دل للچاتا ہے ان کی طلب اور مانگ ہر لمحے بڑھتی جاتی ہے ۔گھر سے باہر نکل کر دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے لے کرکھیل کے میدانوں تک، دریا کے کنارے سے لے کر ٹیلوں اور پہاڑوں تک ،ہر طرف شور مچاتے اور خاک اڑاتے بچوں کے ٹولے گردش زمانہ کی نظر ہو جاتے ہیں ۔ اپنی چیزوں کے لیے دوسروں سے لڑنے والا ایک گبرو جوان کا روپ دھار کر اپنی جیب سے حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔مٹی کے گھروندے میں اپنی گڑیا کی شادی کا جشن منانے والی بچی ایک دن سچ مچ اپنی گڑیا کو پیا دیس رخصت کر کے ممتا  کے آنسو اپنے پلو میں جزب کرتی ہے ،اس کی زندگی کی تمام خوشیاں کبھی صرف کھلونوں سے جڑی ہوتی تھیں وہ زندگی کے دردناک روپ سے بھی واقف ہو جاتی ہے۔۔ ڈھول کی تھاپ پر نوجوانوں کے تھرکتے ہوئے جسم اور ستار کے دل موہ لینے والے ساز کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگا کر مجمع کو مدہوش کرنے والا نوجوان ہاتھ میں تسبیح لئے مصلی بچھا کر بیٹھ جاتا ہے ۔ان سب کی وجہ یہ ہے کہ انسان تغیر پسند ہے ۔ایک ہی طرح کی زندگی اور طور طریقوں سے اس کا دل بہت جلد اوب جاتا ہے،وہ بہتر سے بہترین کی طرف لپکتے دیر نہیں لگاتا ۔یہ ارتقا کا تقاضا بھی ہے کہ وقت کے ساتھ زندگی میں بدلاو لا کر خود کو حالات کے مطابق ڈھالا جائے،لیکن اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی نئی بات کو قبول کرنے اور اپنانے سے پہلے یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اس کا ہماری تہذیب وثقافت ،مزہب اور معاشرے سے تصادم تو نہیں ہو رہا ورنہ وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ذاتی طور پر ہم میں  سے ہر کوئی اگر اپنے گریبان میں جھانکے تو بہت سی فالتو باتوں اور اعمال سے بچ جائیں گے۔جو بیک وقت ہمارے دل ودماغ اور جیب پر بھاری ہوتے ہیں ۔  مسلہ یہ ہے کہ اونٹ کی طرح ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ،کیونکہ صدیوں سے مغربی سامراجیت کی غلامی میں رہ کر اپنا کوئی معیار اور کوئی رائے باقی نہیں رہی۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے قول کے مطابق ،،غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں ،شریف کو بے وقوف،مکار کو چالاک ،قاتل کو بہادراور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں ۔۔۔ بحیثیت قوم ہمارا معیار اتنا گر چکا ہے کہ ہر نودولتیہ ہمارے نزدیک عزت دار اور بڑا ہے۔ جو اپنے بچے کی سالگرہ یا اپنی شادی کی سالگرہ پر جتنا بڑا کیک بنائے رنگ برنگے غباروں سے گھر کے کسی کونے کو سجا کر فوٹو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے اس کی واہ واہ ہوتی ہے۔کسی ریسٹورنٹ میں جا کر ایک آدھ برگر کھاتے تصویر اسٹیٹس لگائےتو اس کو ہزاروں کی تعداد میں ،لائک  کرنے کے ساتھ اس پہ رشک بھی کیا جاتا ہے۔ دوسرے کی دیکھا دیکھی زندگی گزارنے کی کوشش میں اپنے گھر کا سکون غارت کرنے کا رواج چل نکلا ہے۔یہ سوچے بغیرہی دوسروں کی تقلید کی جاتی ہے کہ کیا میری جیب اس کی اجازت دیتی ہے ۔کہ ضروریات کو پس پشت ڈال کر تعیش کے پیچھے بھاگوں؟ غلامی کی یہ عادت ہمارے خمیر میں موجود ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو کچھ بھی کرتا ہوا دیکھ کر فورا ہم بھی اپنا لیتے ہیں ۔اقدار کی پامالی برا تصور نہیں ہو رہا۔ مروت اور لحاظ کو بزدلی سمجھا جاتا ہے ،شرافت کو کمزوری اور سادگی کو غربت کہا جانے لگا ہے۔ اس دور خطا کار میں جو انسان خوشامد اور چاپلوسی کے اسلحے سے لیس ہو وہی لائق تصور ہوتا ہے۔ پردہ دار لوگ دوقیانوس اور دکھاوا کرنے والےماڈرن کہلانے لگے ہیں ۔گویا اس دور میں کوئی بھی اپ کوجینے نہیں دے گا ،اگر جینا چاہتے ہو تو وہ دکھاو جو تم نہیں ہو ،اور جو تم ہو اسے کسی پر ظاہر نہ ہونے دو۔۔۔۔۔ لوگوں کی پروا کرو تو جینا محال اگر نہ کروتو معاشرہ دھتکارے۔ حساس لوگوں کی حالت اس مینڈک کی سی ہو گئی ہے کہ تالاب سے باہر نکلے تو کوا کھائے ،ڈبکی لگائے تو دم گھٹ جائے۔۔۔ انہیں نہ چاہتے ہوئے منافقت کا سہارا لینا پڑتا ہے، کیونکہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا کوئی آسان کام نہیں ان کے پاس سوائے بھرم کے اور کوئی سرمایہ بھی نہیں ۔۔ساری عمرکی ریا ضت سے حاصل ہونے والے شخصی وقار کو برقرار رکھنا بڑا کٹھن کام ہے ۔ایسے افراد کفایت شعاری سے زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں ،لیکن جدید غلام مسلمانوں کا فضول خرچ طبقہ اس کفایت شعاری کو کنجوسی اور قلاشی سمجھنے پر بضد ہو کر ان کا جینا محال کرتا ہے ۔ان کے اپنے بناے ہوئے میزان ہوتے ہیں جن پر سب کو تول کر فیصلہ سناتے ہیں ۔ایسا کرنے سے تنگدست افراد کے دلوں پر کیا گزرتی ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا۔  ہماری ثقافت ،شرافت و انکساری کسی زمانے میں اعلی اوصاف گردانے جاتے تھے۔آج ان پر بات بھی کریں تو لوگ لطیفہ سمجھتے ہیں ۔زندگی کے معیار اتنی تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہونے لگتی ہے۔ انبیا اولیا ،بزرگان دین کی صحبت میں بیٹھ کر ان کے قول و عمل کو اپنانے میں اپنی بڑائی تصور کی جاتی تھی ،لیکن اب ،فالو،، کرتے بھی ہیں تو اداکاراوں اور ٹک ٹاکرز،،کو  بڑی خوشی اور فخر سے ان پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ان جیسا بننے کی آرزو دل میں دبائے زندگی گزارتے ہیں ۔ہمارے اجداد کن کے فالوورز تھے اور ہم کن کے؟  ہمارا معیار اتنا کیوں گر گیا ہے ؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟                        بتایئے گا ضرور                                          

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ