ہنزہ نیوز اردو

یہ بات ریاست پاکستان نے واضع کر دی ہے کہ گلگت بلتستان نہ آوٹ انگ ہے نہ ہی بھارت کا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

یہ بات ریاست پاکستان نے واضع کر دی ہے کہ گلگت بلتستان نہ آوٹ انگ ہے نہ ہی بھارت کا شہ رگ اور نہ ہی کسی کی جاگیر بلکہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے،اور ریاست کشمیر کا چوتھا فریق ہے۔
کچھ سال قبل سے بھارت کی طرح ریاست پاکستان کے اداروں نے گلگت بلتستان میں اپنی جبری چہرہ دیکھانی شروع کر دی ہے۔
حال ہی میں ایف۔ڈبلیو۔او  نے ضلع ہنزہ کے بالائی علاقہ چپورسن گوجال میں بغیر کسی لیگل اگریمنٹ کے پہاڑی علاقوں میں مائنگ کا کام شروع کر دیا ہے۔یہی نہیں 2018 میں عوامی پراپرٹی سوست ڈرائی پورٹ بھی NLC نے قبضہ جما لی، اس کے علاوہ سکردو ائیرپورٹ کے قریب غریب و محنت کش کے زمینوں پر بغیر کسی معاوضے کے قبضہ جما لی، حسینی سسپنش پل پر بھی اپنی ملکیت کر دی،وادی نلتر میں بھی PAF نے لیز کے نام پر قبضہ کر لی اس کے علاوہ اور بھی ایسی عوامی پراپرٹیز ہیں جن پر آج ریاست اور اس کے ظالم اداروں نے ڈیرہ ڈال لی ہے۔
72سال بیت گئے عوام کو آئینی حقوق دلوانے کے نام پر ماموں بنایا جاتا رہا،اب کوئی سوال بھی کرے ان وفاقی چمچوں سے کیوں اس بات پر چپ ہیں زبانی مذمت کے علاوہ کیوں کچھ نہیں کر سکتے،۔۔ بس حقیقت یہی ہے کہ تمام وفاقی پارٹیاں بشمول پیپلز پارٹی، پی۔ٹی۔ای،، نون لیگ ،اور دوسرے پاکستانی سیاسی پارٹیاں سب کے سب نوآبادیاتی نظام یا کولونیل رول کو برقرار رکھنے کے لئے سہولتکاری کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، یہ محض اپنی ذاتی مفادات اور مراعات کے لالچ میں عوام کو اتنی سالوں سے بیوقوف بنا رہے ہیں۔یہ پارٹیاں نہ سٹیٹ سبجکٹ رول بحال کر سکی،، بلکہ لینڈ ریفرنڈم جی-بی کے نام پر دوسری سازش متعارف کروا رہی ہے ۔۔
آج دیس کے لعنتی حکمرانوں کے باعث، آج جی۔بی کے عوام نوآبادیاتی نظام کی چکیی میں پس رہے ہیں،جی ہاں یہ وہی سیاست دان ہے جو ملک میں پھیلی وابا (کرونا وارس)پر بھی سیاسی بازار گرم کر بیٹھے، اندر مشکل سے دال روٹی کھلاتے ہیں اور باہر ٹروٹ مچھلی کہلوانے کی دعوے کرتے ہیں ۔
اسی سال جنوری کے مہینے میں ایف۔ڈبلیو۔او نے غیر قانونی شکار خنجراب نیشنل پارک میں کر لی تھی کیا پتہ چلا ،نہیں ، کیونکہ فیض احمد فیض نے سچ ہی کہا تھا اس دیس میں قاضی بھی ملزم سے پوچھ کے لکھتا ہے۔ یہ قانون صرف غریب کے لیے ہے کرنلوں کے لیے نہیں ۔۔اس ریاست کے اندھے جبری اداروں کو کبھی چپورسن کے مسائل دور دور تک نہ دیکھائی دی ،وسائل پر بڑے جلد ہی نظر پڑی واہ۔
دوسری طرف گلگت بلتستان میں انہی ریاستی اداروں کی سہولتکاری میں مقدس اداروں کے مذہبی لیڈران کی قربانیاں پیش پیش ہیں ۔تاریخ میں لکھا جائے گا کہ گلگت بلتستان میں عوامی زمینوں کو حکومت کے ہاتھوں تفویض کرنے میں انہی کا ہاتھ تھا ۔
سوست ڈرائی پورٹ اور چیپورسن میں قبضہ کی گئی عوامی ملکیت زمینوں میں اسماعیلی کونسل میں بیٹھے صدر،مکھی و کامریا کا بھی سہولتکاری میں کلیدی کردار ہے،جو میں نے اس پوسٹ کے آخر میں آویزاں کر دی ہے ،سوست ڈرائی پورٹ کے جالی معاہدہ کو ایک بار پھر سامنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ حقائق اور ان کی کردار کو زندہ رکھا جاے،جس کو چند پیسوں اور نوکری ومراآعت کی لالچ میں اپنی ضمیر کے ساتھ آنے والی جی۔بی کے نسلوں کا بھی سودا کر ڈالی ۔اس سودے میں تقریبا ایک دو کے علاوہ سب مقدس اداروں مذہبی لیڈران ہیں ۔
اس کے ساتھ آج موصول ہونے والی چپورسن میں قابضوں نے قبضے کے جواز پیدا کرنے کے لیے ایک عام کاغذ پر تحریری معاہدہ پیش کی ہے ،اس میں بھی انہی مذہبی لیڈران کے کارنامے واضح ہیں ۔
جب بھی بات آزادی کشمیر کی چھڈ جاے،اول فہرست میں یہی مذہبی لیڈران چاہئے شیخ، مولوی،یا وعظ قوم پرستی کا بھی یہی لوگ اداکاری کرتے ہیں کمبخت انہیں گلگت میں ریاستی جبر اور اپنی دیس میں ظلم نہیں دیکھ رہی ہے کیا؟؟، ان کشمیر فتح کرنے والے مجاہدین سے درخواست ہے کہ کبھی بابا جان اور دوسرے مظلوم قیدیوں جو آج ان کے خاطر بند ہیں ان کے لیے بھی کبھی فرست ہو تو ریلی نکالے ۔ میرے اس تحریر کا مقصد یہاں کسی مسلک یا مزہب پر تنقید کا نہیں بلکہ مذہبی کارڈ کا غلط استعمال ہے، جو فریضہ ہمارے مذہبی لیڈران سرانجام دے رہے ہیں یہ محض رونگ نمبر ہی ہے ۔
اور یہ ہمارا فرض ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی جہاں کہیں بھی ہو حق کی صدا ہمشیہ بلند اور ہمشیہ حق کے ساتھ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی منافقت نوجوانوں نسل جان چکی ہے آنے والے الیکشن میں بلخصوص نوجوان طبقے سے التماس ہے کہ ان وفاقی چمچوں کی باتوں میں آے بغیر اپنا راستہ خود متعین کر لے

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ