ہنزہ نیوز اردو

اسیران ہنزہ اور دھرنا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی

وادی ہنزہ کو گلگت۔بلتستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے معاشروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہنزہ کے لوگوں کے ساتھ یا تو جان بوجھ کر ظلم کیا جا رہا ہے، یا یہ ایک سازش ہے۔ یہ فیصلہ آپ خود کریں۔ ہنزہ ابھی سے نہیں کئی عشروں سے محرومیوں کا گٹر بنا ہوا ہے۔ ہنزہ میں جاری دھرنے کو دیکھے اسیران ِہنزہ کی رہائی کے لئے راہ تکتے بچے ،آنکھوں سے آنسوؤں ٹپکاتی جگر اور کلیجے میں درد اُٹھا تی مائیں، بھائیوں کے سہارے سے محروم بہنوں کی آہیں، مجازی خداؤں کے سائے سے محروم حیرت زدہ اور خاموش خواتین؛ ان کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ افسوس صد افسوس۔
کہاں ہیں وہ گمنام ادارے؟ کہاں ہیں وہ انسانی اور اسلامی اقدار؟ کہاں ہیں وہ قومی نعرے؟ کہاں ہیں نام نہاد اور موقع پرست، اور اپنے ہی قافلوں کو لوٹنے والے لیڈر؟ کہاں ہیں وہ انصاف کا سودا کرنی والی عدالتیں؟کہاں ہیں عدالتی کمیشن؟کہاں ہیں وہ رپورٹس جس کی بنیاد پر معصوم بچوں کے سر سے والد جیسے عظیم ہستی کا سایا چھینا گیا، ماؤں کے پیروں تلے سے اُن کی زمین چھینی گئی، نوجوان اولادوں کو بے بنیاد مقدمات میں عمر قید کی سزا سنا کر جیلوں میں بھر دیئے گئے۔
اگر یہ سب ہنزہ والوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں تو اور کیا ہے؟کیا لکھوں اور کیا تحریر کروں؟ کہاں ہیں ہنزہ کے وہ سلیکٹڈ نمائندے؟ اتنے بڑے علاقے کا ایک ہی نمائندہ اور وہ بھی گندی سیاست کے نظر۔ اور علاقے کو ان کے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا ہے یہ لٹیرے جہاں چاہیں جب چاہیں، قوم کو لوٹتے رہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔
ہنزہ کے سوئے ہوئے لوگو اس ساری کہانی میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں۔ آخر کب اپنی ضمیر کو آواز دو گے؟ تم تو وہ قوم تھے جس نے 1891 ء میں تاج برطانیہ کے زور بازو کو چیلنچ کیا تھا۔ اور بقول انگریزوں کے نلت کے مقام پر ہنزہ کو فتح کرنے کے لئے برصغیر کی مشکل ترین جنگ لڑی تھی۔ جس میں تاج برطانیہ کے تین اعلیٰ افسروں کو جنگ ہنزہ میں لڑتے ہوئے جان دینے پر اُس وقت کی سب سے بڑی فوجی اعزاز (ویکٹورہ کراس) سے نوازا گیا۔ (وکی پیڈیا)آج تم لوگ کہاں گم نامی کی زندگی گزار رہے ہو۔ یا تو تم اپنوں سے لڑنے اور بغاوت کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہو، کیونکہ سرحدوں پر دشمن سے لڑتے ہوئے آج بھی سب سے زیادہ تم ہی وطن پر قربان ہو رہے ہو۔ یا تو شرافت کا بھوت تم پر اتنا سوار ہو گیا ہے کہ ظلم و زیادتی اور حق کے لئے لڑنے کو جرم سمجھنے لگے ہو۔ میں سلام پیش کرتا ہوں ان ماؤں بہنوں کو ان بزرگوں کو نوجوانوں جو دھرنے میں حق کی آواز بلند کر رہے ہیں ذرا آج اپنے آپ سے سوال کریں، کیا ظلم کرنے والوں سے ان سوالوں کا جواب مانگ سکتے ہیں ملک کو لوٹ کھسوٹ ، چوری، قتل و غارت، ملاوٹ، دھوکہ دہی اور اداروں کو نوچنے اور لوٹنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے؟ کیا تم نے میڈیا کے ذریعے اپنی محرومیوں اور پامالیوں کو چیخ چیخ کر اقوام عالم کے سامنے رکھا ہے؟
آج میں اس لئے جذباتی ہو رہا ہوں کیونکہ میں نے اُن چھوٹے اور معصوم بچوں کی آنکھوں میں اُس درد کو محسوس کیا ہے ، جب وہ ہاتھوں میں بینر اُٹھائے اپنے ہی ملک کے ایوانوں سے انصاف کی بھیک مانگ رہے تھے۔ مجھے لگا کیا ہم اتنے بے بس اورمجبور ہو گئے ہیں کہ آزادی سے اور اپنی مرضی سے جینے کے لئے اپنے ہی ملک میں ذلیل و رُسوا کئے جائیں گے۔ اور ملک کے سرحدوں پر ہمارے ہی سرفروش بیٹوں کو آگے کر کے اُن کے لہو سے فتح کے جھنڈے گاڑ کر اقوام عالم میں داد وصول کئے جائیں گے۔ آخر کب تک؟ اپنوں سے بغاوت کرنا گناہ ہو سکتا ، جرم ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنا حق کسی سے چھین کر حاصل کرنا جرم یا گناہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر اسی کو نظریہ مان لیا جائے تو ماضی کے ہمارے سب نظریے باطل ہو جائیں گے۔ اور ہم سب ہی غدار کہلائیں گے۔
ہنزہ والو ! اسیران ِ ہنزہ ، جنہوں نے اپنے زندگیوں کو جہنم بنا کر تمھاری زندگیوں کو آسان بنانے کے خواب دیکھے ، تمہارے روشن کل کے لئے اپنا آج تاریک کیا ۔ ان مظلوموں کے حق میں آخر کب نکلو گے؟ آج اگر تم اپنے حق کے لئے نہیں نکلے تو کل تم اور تمہارے بچے دو عالمی قوتوں کے پیروں تلے ایسے مسل دیئے جاؤ گے کہ تمہارا نام و نشان اور پہچان دونوں ہی مٹ جائیں گے۔ اور تمہاری بے بسی پر ماتم کرنےوالا بھی کوئی نہیں ہوگا۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ