صبح کے چار بجے تک ”ایگل نیسٹ“میں اندھیرا تھا‘ میں بالکونی میں بیٹھا تھا‘ میرے سامنے پہاڑ اندھیرے کی چادر اوڑھ کر لیٹے تھے‘ آسمان پر گہرا سکوت تھا‘ وادی میں چیری‘ سیب‘ خوبانی اور انجیر کے درختوں کے نیچے دریا بہہ رہا تھا‘ فضا میں خنکی تھی اور اس خنکی میں گرمیوں کی مٹھاس تھی‘ چار بج کر پانچ منٹ پر چوٹیاں سفید ہونے لگیں‘ راکا پوشی نے اندھیرے کے لحاف سے منہ باہر نکالا‘ دائیں بائیں دیکھا اور پھر دوسری آٹھ چوٹیاں بھی آہستہ آہستہ لحافوں سے باہر آنے لگیں۔ ”لیڈی فنگر“ میری دائیں جانب پیچھے کی طرف تھی‘ میں نے گردن گھما کر دیکھا‘ لیڈی فنگر کا سفید کلس بھی اندھیرے کا طلسم توڑ کر باہر آ چکا تھا‘ اس کے ہمسائے میں برف کا سفید گنبد تھا‘ اس گنبد کی چاندی بھی چمک رہی تھی‘ اب وہاں برف کی چاندی تھی‘ خنک ہوا تھی‘ لیڈی فنگر کا سفید کلس تھا‘ راکاپوشی کے بدن سے سرکتی چادر تھی‘ انجیر‘ خوبانی‘ سیب اور چیری کے درختوں کے نیچے بہتا دریا تھا‘ دور نگر کی مسجد سے فجر کی نماز کا بلاوا تھا ”ایگل نیسٹ“ کی بالکونی تھی‘ ہنزہ کا سویا ہوا قصبہ تھا‘ال تت فورٹ کا اداس واچ ٹاور تھا‘ بلتت فورٹ کے دکھی جھروکے تھے اور وقت میں گھلتا ہوا وقت تھا اور پھر وہ لمحہ آگیا‘ وہ لمحہ جس کی تلاش میں صدیوں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں‘ ایگل نیسٹ کی ان چٹانوں پر بیٹھ رہے ہیں‘ رات کو دن میں بدلتے دیکھ رہے ہیں‘ اپنی بینائی کا صدقہ اتار رہے ہیں اور پھر باقی زندگی ”میں نے بھی وہ دیکھا تھا“ جیسی کہانیاں سنانے کےلئے اپنے وطن واپس جا رہے ہیں‘ میں نے کھلی آنکھوں سے راکا پوشی کی چوٹیوں کو سفید ہوتے‘ پھر اس سفیدی کو سونے میں ڈھلتے اور پھر اس سونے کو چمکتے دیکھا‘ وہ لمحہ مقدس تھا‘ انمول تھا‘ بیت المقدس کی اذان‘ بیت اللحم کے قدیم کلیساﺅں کی گھنٹیوں اور تبت کے بھکشوں کی مناجات کی طرح انمول اور مقدس‘ میں نے دوبارہ لیڈی فنگر کی طرف دیکھا‘ لیڈی فنگر کا بالائی سرا دیئے کی جلتی بتی بن چکا تھا اور لیڈی فنگر اب لیڈی فنگر نہیں رہی تھی‘ وہ موم بتی بن چکی تھی‘ میرے اندر سے آواز آئی ”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ”بے شک‘ بے شک“۔
میں جمعہ کی صبح ہنزہ پہنچا‘ میرا بیٹا شماعیل دو ہفتے پہلے یہاں سے ہو کر آیا تھا‘ میں اس کی باتوں کے پلوں پر چل کر یہاں پہنچ گیا‘ اسلام آباد گلگت فلائیٹ پی آئی اے کی بہت بڑی مہربانی ہے‘ یہ اس پوشیدہ زمین کا چمکدار دنیا سے واحد فضائی رابطہ ہے‘ نائین الیون سے پہلے گورے اسلام آباد آتے تھے‘ فلائیٹ لے کر گلگت پہنچتے تھے اور پھر پاکستان کی پوشیدہ جنتوں میں اتر جاتے تھے‘ نائین الیون جہاں دنیا کی دوسری لذتوں اور نعمتوں کو نگل گیا یہ وہاں گلگت بلتستان کی سیاحت کو بھی کھا گیا لیکن جس طرح ہر برائی سے کئی اچھائیاں جنم لیتی ہیں بالکل اسی طرح اس سیاحتی تعطل نے مقامی انڈسٹری ڈویلپ کر دی‘ یہ فلائیٹ اب پاکستانیوں کےلئے انار بن چکی ہے‘ گلگت کےلئے نشستیں ناممکن ہیں‘ کم از کم ایک ماہ پہلے بکنگ کرانا پڑتی ہے‘ میں خوش نصیب تھا‘ مجھے ہفتہ بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد سیٹ مل گئی‘ یہ فلائیٹ دنیا کی خوبصورت لیکن خطرناک ترین فضائی روٹ ہے‘ جہاز گلگت ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ایسی تکون میں داخل ہوتا ہے جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں‘ یہ جگہ پونجی کہلاتی ہے‘ اس جگہ ہمالیہ‘ کوہ ہندو کش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں چنانچہ گلگت کی لینڈنگ دنیا کی خطرناک ترین لینڈنگز میں شمار ہوتی ہے‘ یہ لینڈنگ دل گردے کا کام ہے اور ہمارے پائلٹس یہ کام روزانہ کرتے ہیں ‘ یہ وہ پریکٹس ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ دنیا کے خطرناک ترین ائیر پورٹس پر بھی آسانی سے جہاز اتار لیتے ہیں۔
میں گلگت سے گاڑی لے کر ہنزہ روانہ ہوگیا‘ پاکستان نے چین کی مدد سے حال ہی میں شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر کی‘ یہ سڑک انسانی معجزے سے کم نہیں‘ آپ کو سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑوں کے درمیان موٹروے جیسی رواں سڑک ملتی ہے‘ یہ سڑک ہنزہ کو گلگت سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لے آئی ہے‘ سڑک درمیان سے تین جگہوں پر لینڈ سلائیڈنگ کا شکار تھی لیکن یہ اس کے باوجود رواں اور بے خطر تھی‘ ہمارے بائیں جانب گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا‘ دریا کے اوپر اترائیوں پر کھیت اور باغ تھے‘ ان کے اوپر سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں کے درمیان ماضی کی شاہراہ ریشم اور آج کی قراقرم ہائی وے بہہ رہی تھی‘ میں دو گھنٹے میں ہنزہ پہنچ گیا۔ہنزہ48 دیہات اور قصبوں کی خوبصورت وادی ہے‘ یہ وادی اسماعیلی کمیونٹی اور طلسماتی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ ہنزہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے چین کے سفید ہنوں نے آباد کیا اور یہ ہنوں کی وجہ سے ہنزہ کہلایا‘ دریا کے ایک کنارے پر ہنزہ ہے اور دوسرے کنارے پر نگر۔ یہ دونوں شہر دو بھائیوں کی ملکیت تھے‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے‘ یہ پیاس صدیوں تک چلتی رہی‘ نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں پر حملے کرتے رہے اور ہنزہ کے سپاہی نگر کی کی فصلیں‘ باغ اور جانور اجاڑتے رہے‘ یہ دشمنی آج تک قائم ہے‘ آج بھی نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ہنزہ کے لوگ نگر کے باسیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ ہنزہ کے حکمرانوں نے نگر کے حملہ آوروں اور شاہراہ ریشم سے گزرتے قافلوں پر نظر رکھنے کےلئے 1100 سال پہلے دریا کے کنارے خوبصورت قلعہ تعمیر کیا‘ یہ قلعہ ال تت فورٹ کہلاتا ہے‘ مقامی زبان میں ال تت اِدھر کو کہتے ہیں اور بلتت اُدھرکو‘ ال تت کی تعمیر کے تین سو سال بعد بلتت کا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا‘ یہ قلعہ آج بھی وادی کے دوسرے کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں موجود ہے‘ بادشاہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے‘ ہنزہ کے بادشاہ میر کہلاتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972ءمیں پہلے نگر کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور پھر 1974ءمیں ہنزہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا‘ یہ دونوں شہر اس سے قبل آزاد ریاستیں تھیں‘ حکومت نے شمولیت کے بدلے نگر اور ہنزہ کے حکمران خاندانوں کو خصوصی مراعات دیں‘ دونوں کو اسلام آباد میں پانچ پانچ کنال کے پلاٹس‘ وظیفہ اور خصوصی سٹیٹس دیا گیا‘ نگر کے حکمران آہستہ آہستہ کاروباری دنیا میں گم ہو گئے جبکہ ہنزہ کا حکمران خاندان سیاست میں آیا اور یہ آج تک مشہور ہے‘ میر غضنفر علی خان اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر ہیں‘ ان کے صاحبزادے سلیم خان والد کی خالی نشست پر صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں‘ اسلام آباد کی پوش سڑک مارگلہ روڈ پر ہنزہ ہاﺅس 30 سال سے گزرنے والوں کو ہنزہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے‘ خاندان کے پاس پرانی کاروں کا خوبصورت بیڑہ بھی ہے‘ یہ لوگ جب اپنی پرانی قیمتی کاروں میں سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ ان کی سرخ رنگ کی نمبر پلیٹ اور اس پر ہنزہ ون اور ہنزہ ٹو دیکھ کر رک جاتے ہیں‘ آغا خان فاﺅنڈیشن نے ہنزہ میں بے تحاشہ کام کیا‘ فاﺅنڈیشن نے پورا ال تت گاﺅں دوبارہ بنا دیا‘ ال تت گاﺅں کی پرانی گلیوں اور قدیم ساخت کے مکانوں میں تاریخ بکھری پڑی ہے‘ ال تت فورٹ کا شکوہ بھی دل میں اتر جاتا ہے‘ بادشاہ کہاں بیٹھتا تھا‘ ملکہ کہاں رہتی تھی‘ درباری کہاں آتے تھے‘ قیدیوں کو زیر زمین قید خانے میں کس طرح رکھا جاتا تھا‘ شاہی خاندان کے واش روم کی غلاظت قید خانے میں قیدیوں پر کیوں گرائی جاتی تھی‘ قیدیوں کو قلعے کی کس دیوار سے پھینک کر سزائے موت دی جاتی تھی اور حملے کے دوران شاہی خاندان کو کس کمرے میں چھپا دیا جاتا تھا اور انہیں کس طرح سرنگ سے گزار کر پانی کے تالاب تک لایا جاتا تھا‘یہ ساری کہانیاں ہوش ربا ہیں‘ ال تت گاﺅں کے درمیان تالاب ہے‘ یہ تالاب گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی سے لبا لب بھرا تھا‘ گاﺅں کے نوجوان اور بچے تالاب میں نہا رہے تھے‘ خواتین انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھی تھیں اور بوڑھے تھڑوں پر بیٹھ کر جوانی کے قصے سنا رہے تھے‘ قلعے کے ساتھ چھوٹا سا گھریلو ریستوران تھا‘ ریستوران کا سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا‘ یہ خواتین گاﺅں سے تعلق رکھتی تھیں‘ کرسیاں اور میز خوبانی اور سیب کے درختوں تلے بچھی تھیں‘ ساتھ پانی کا چھوٹا سا تالاب تھا‘ میں دو گھنٹے ریستوران میں بیٹھا رہا‘ کھانا تازہ اور دیہاتی تھا‘ خاتون نے بتایا ریستوران آغا خان فاﺅنڈیشن نے بنایا‘ سٹاف کو ٹریننگ ”سرینا“ نے دی اور یہ وادی کا مقبول ترین ریستوران ہے‘ میں تازہ خوبانیاں بھی توڑ کر کھاتا رہا۔
ایگل نیسٹ ہنزہ کا خوبصورت ترین مقام ہے‘ یہ لیڈی فنگر کے سائے میں انتہائی بلندی پر واقع ہے‘ یہ جگہ ریٹائرڈ فوجی جوان علی مدد کے پردادا کی تھی‘ علی مدد نے 1990ءکی دہائی میں اس جگہ ایک کمرہ بنایا اور اس پر ”ایگل نیسٹ“ لکھ دیا‘ اس کمرے نے پوری چوٹی کو ”ایگل نیسٹ“ کا نام دے دیا‘ یہ ہوٹل اب 41 کمروں کا خوبصورت ”ریزارٹ“ بن چکا ہے‘ یہ وادی کی ”پرائم لوکیشن“ ہے‘ آپ کو یہاں سے ہنزہ اور نگر کی وادیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہنزہ کی گیارہ چوٹیاں بھی‘ یہ ہوٹل بنانا اور اس ہوٹل کے گرد گاﺅں آباد کرنا انسانی معجزہ ہے اور علی مدد اس معجزے کا ”آرکی ٹیکٹ“ ہے‘ یہ رات تک اپنے ہوٹل میں اس طرح پھرتا رہتا ہے جس طرح خوش حال دادا اپنی صحت مند آل اولاد کے درمیان خوش خوش پھرتا ہے‘ علی مدد نے اس مشکل جگہ سڑک بھی پہنچائی‘پانی بھی اور زندگی کی دوسری سہولتیں بھی‘ یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یہ ہوٹل اب ہنزہ کا ”آئی کان“ بن چکا ہے‘ دنیا کے خواہ کسی بھی کونے سے کوئی مسافر آئے وہ ”ایگل نیسٹ“ ضرور پہنچتا ہے‘ ہوٹل میں کمرہ خوش نصیبی سے ملتا ہے‘ آپ یہاں سے لیڈی فنگر اور راکا پوشی کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں‘ وہ چٹان بھی ایگل نیسٹ ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں سے11 چوٹیاں نظر آتی ہیں‘ یہ تمام چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں‘یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد مقام ہے‘ آپ دس منٹ کی کوشش کے بعد دنیا کی اس چھت پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ دائرے میں گھوم کر گیارہ برفیلی چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں‘ یہ مقام طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سیاحوں کی ”عبادت گاہ“ بن جاتا ہے‘ لوگ صبح کے وقت یہاں سے سورج کو گیارہ چوٹیوں پر دستک دیتے دیکھتے ہیں‘ آنکھوں کے سامنے برف پوش چوٹیاں اندھیرے کا نقاب الٹ کر سامنے آتی ہیں‘ پھر ان کے رخساروں پر سورج کا سنہرا پن اترتا ہے‘ پھر یہ سنہرا پن چمکنے لگتا ہے اور پھر پوری وادی میں نیا دن طلوع ہو جاتا ہے‘ یہ جگہ غروب آفتاب کے وقت ایک بار پھر مقدس ہو جاتی ہے‘ آپ اگر یہاں کھڑے ہوں تو سورج آپ کی نظروں کے سامنے اپنی کرنیں سمیٹے گا اور سونے کےلئے راکا پوشی کے برفیلے غاروں میں گم ہو جائے گا‘ صبح اور شام ایگل نیسٹ کے دو خوبصورت انمول وقت ہیں‘ یہ لائف ٹائم تجربہ ہیں اور میں دو دن یہ لائف ٹائم تجربہ کرتا رہا یہاں تک کہ میں کل سوموار کی صبح گلگت آنے سے پہلے بھی بالکونی میں بیٹھ کر راکا پوشی پر صبح صادق کو اترتے دیکھتا رہا‘ وادی میں اس وقت روحوں کے قہقہے اور فرشتوں کے پروں کی آوازیں آ رہی تھیں اور زندگی وقت کی تال پر رقص کر رہی تھی۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ