محمد شراف الدین فریادؔ
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے اپنے حالیہ دورہ ضلع دیامر کے موقع پر بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ داریل اور تانگیر کو دو الگ الگ ضلعے بنائے جائیں گے جس کا نوٹیفیکشن اگلے ماہ جاری ہوگا اور دونوں نئے اضلاع کے مکمل سیٹ اپ کے لیے جون کے بجٹ میں 50 کروڑ روپے بھی مختص ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ نے مخالفین کو خبر دار کیا کہ وہ خطے کی ترقی میں ٹانگ نہ اڑائیں ۔ بعض لوگ اہم ترقیاتی منصوبوں کو ثبو تاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اُنہوں نے دیامر بھاشہ ڈیم کی رقم مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے فراہم کرنے پر وفاقی حکومت سے شدید احتجاج بھی کیا اور ان کے اس عمل کو لمحہ فکریہ بھی قراردیا اور چلاس کے عوام سے یہ وعدہ بھی کیا کہ ان کے لیے 200 بیڈ کا ہسپتال سات ماہ کے اندر اندر مکمل ہوگا اور عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہوں گی۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے اس کے علاوہ بھی بہت سارے اعلانات کیے مگر اس دورے کے موقع پر داریل و تانگیر کو دو الگ الگ اضلاع بنانے کا جو اعلان اُنہوں نے کیا ہے اس سے دیگر اعلانات کی نسبت زیادہ اہمیت اس لیے دی جاتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ “ن” کی مرکز اور گلگت بلتستان میں حکومتیں قائم ہونے کے بعد گلگت بلتستان میں تین نئے اضلاع ہنزہ ، نگر اور شگر کے قیام کے نوٹفیکیشن جاری ہوگئے تھے اور داریل و تانگیر کے عوام سے کہا گیا تھاکہ ان کے اضلاع کا بھی اعلان بہت جلد ہوگا اور آبادی اور قبے کے تناسب کے لحاظ سے داریل و تانگیر کو بھی دو الگ الگ اضلاع کا درجہ دیا جائے گا ۔ وقت گزرتا گیا اور وہاں کے عوام انتظار کرتے رہے کہ انہیں بھی حکومت کی طرف سے نئے اضلاع کی نوید سنائی جائے گی اسی نوید کی انتظار میں تھے کہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ” ن” کی حکومت ختم ہوگئی، قومی انتخابات ہوگئے اور عوامی توقعات کے برعکس وفاق میں عمران خان کی پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔ پنجاب بھی مسلم لیگ “ن” کے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلم لیگی قائدین کے خلاف مقدمات کی بوچھاڑ ہوگئی۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے داریل اور تانگیر کے عوام میں بھی نئے اضلاع کے حوالے سے جو اُمید کی کرن باقی تھی وہ بھی ختم ہوگئی اور داریل وتانگیر کے لوگ کہنے لگے کہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن اگر شروع کے دنوں میں ہی مذکورہ علاقوں کو اضلاع بنانے کا اعلان کرتے تو شاید آج دیگر نئے اضلاع ہنزہ ، نگر اور ضلع شگر کی طرح داریل و تانگیر میں بھی سیٹ اپ مکمل ہوچکاہوتا، اب تو مرکز میں بھی ان کی حکومت نہیں رہی ، ایسے حالات میں صوبائی حکومت کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ داریل اور تانگیر کے لوگوں نے حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب کو اس تاخیری کا ذمہ دار قرار دینا شروع کیا اور یہاں تک کہ بعض قائدین نے ان کی جماعت کو مجرم لیگ تک کہا ۔ اب وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنے حالیہ دورہ دیامر کے موقع پر داریل و تانگیر کو دو الگ الگ اضلاع بنانے اور آئندہ ماہ اس کا نوٹفیکینش جاری کرنے کا اعلان کرکے وہاں کے عوام کے دل جیت لیے ہیں بلکہ ان میں پائی جانے والی کنفیوژن کو بھی دور کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کا یہ اعلان بھی خوش آئند ہے کہ مذکورہ نئے اضلاع کی مکمل سیٹ اپ کے لیے جون 2019 ء کے بجٹ میں 50کروڑ روپے بھی مختص ہوں گے ۔ وزیر اعلیٰ صاحب کے اس اعلان کے بعد داریل و تانگیر کے علاقوں
میں جشن کا سماں ہے اور وہاں کے عوام مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں ۔ خوشی کے اس موقع پر ہم بھی داریل و تانگیر کے عوام کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہمارے محترم وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب کو اپنے ان اہم اعلانات پر فوری عمل درآمد کی توفیق عطاء کرے اور ساتھ ہی آبادی کی تناسب اور عوامی مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے ضلع غذر میں بھی ایک اضافی ضلع کا قیام عمل میں لانا ہوگا ۔
آخر میں قارئین و عوام کی اس غلط فہمی کو بھی دور کرنا لازمی ہے کہ بعض کے خیال کے مطابق ہمارے وزیر اعلیٰ کو نئے اضلاع بنانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ہاں بالکل گورننس آرڈر2009 ء میں یہ اختیار بالکل انہیں حاصل نہیں تھا اب جبکہ گلگت بلتستان میں گورننس آرڈر 2018 ء نافذ العمل ہے جس میں ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب کو کسی بھی علاقے میں آبادی و رقبے کی تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے ضلع یا اضلاع بنانے کا اختیار دے دیا گیا ہے اور اس وقت پورے خطے کا نظم و نسق اسی گورننس آرڈر 2018 ء کے مطابق چل رہا ہے۔