ہنزہ نیوز اردو

بحریہ ٹاؤن کراچی کیس اور حقائق

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

عمران اللہ مشعل۔

تقریبا 6 سال پہلے بحریہ ٹاؤن نے سندہ حکومت سے اپنی زمین کا تبادلہ کرکے ملیر میں دوسری زمین لے لی اور ساتھ میں پونے پانچ ارب روپے بھی دے دیں۔

یوں اسطرح مزکورہ زمین سندہ حکومت سے بحریہ ٹاؤن کو منتقل ہوئ جو کہ حکومت سندہ اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان کے باقائدہ ایک معاہدہ کے تحت تمام قانونی تقاضے پورے کرکے کے یہ زمین کا لین ڈین مکمل ہوا تھا۔

زمین کی منتقلی کے بعد بحریہ ٹاؤن نے وہاں اپنا تعمیراتی پراجیکٹ شروع کیا اور پلاٹس بناکر بیچنا شروع کی جس میں ہزاروں لوگوں نے انوسمنٹ بھی کی۔

جب یہ بات سپریم کورٹ کی نوٹس میں آئ تو سپریم کورٹ میں کیس چلا اور اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دیکر سپریم کورٹ نے مزید کاروئ کے لیے عملدرآمد بنچ بنادی جس نے مزید اس کیس کی سماعت کی۔

اس کیس کی ہر سماعت کے موقعے پر سندہ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور ایڈوکیٹ جنرل سندہ نے ہمیشہ حکومت سندہ اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان ہونے والی لین ڈین کو قانونی اور درست قرار دی اور پونے پانچ ارب سے زیادہ روپے لینے سے بھی انکار کیا ہر بار یہی کہتے رہے کہ پونے پانچ ارب روپے کی رقم درست ہے اور زمین کی اتنی ہی قیمت بنتی ہے
مگر سپریم کورٹ نے سندہ حکومت کی موقف کو ہر بار مسترد کرتی رہی۔

چونکہ یہ حکومت سندہ اور ملک ریاض کے درمیان معاہدہ تھا اور سندہ حکومت کی یہ زمہ داری بنتی تھی وہ اپنی دی جانی والی زمین کو کلیر کریں۔

اس کیس کے تیسرے فریق وہ لوگ تھے جنہوں نے بحریہ ٹاؤن سے پلاٹس خریدیں تھے انکا بھی براہ راست نقصان ہورہا تھا اسلیے سپریم کورٹ کے سامنے انکا مفاد بھی اہم تھا۔

اب سپریم کورٹ کے سامنے تین آپشن تھے۔

پہلا آپشن پوری سندہ حکومت کو نااہل قرار دیتی جس نے سرکاری زمین کو اونے پونے داموں غیر قانونی طور پے بیچ دی۔

اگر نااہل والی بات آجاتی تو ہم سب کو پتہ ہیں جمہوریت اور ۱۸ ویں ترمیم خطرے میں آجاتی اور سندہ کارڈ کھیلا جاتا۔

دوسرا آپشن یہ تھا ملک ریاض سے یہ زمین واپس لیکر سندہ حکومت کو واپس دی جاتی یا کسی اور پرائیویٹ ایسے ادارے کو دی جاتی 

مگر سندہ حکومت تو واپس لینے سے انکاری تھی اور واپس لے بھی جاتی تو یہ زمین اومنی کے انور مجید یا کسی اور قبضہ مافیاز کے ہاتھ لگ جاتی فائدہ کچھ بھی نہیں ہونا تھااور نہ ہی دوسرا ایسا کوئ ادارہ تھا جو اس زمین کو لیکر ڈویلپ کرتا۔

تیسرا آپشن یہ تھا اس زمین کا موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ملک ریاض سے معاوضہ لیا جائے جس سے جو تیسرا فریق انویسٹرز کا ہے انکے بھی حقوق محفوظ ہوجاتے۔

اسلیے سپریم کورٹ نے تیسرے آپشن پر غور شروع کی اور ملک ریاض کو زمین کی اصل ریٹ دینے کا کہا جس کا انہوں نے پہلے 49 ارب دینے کی پیشکش کی جسے سپریم کورٹ نےرد کی پھر پیشکش کو بڑھاتے بڑھاتے 460 ارب تک پہنچ گئ جسے قبول کیا گیا یوں جو زمین پونے پانچ ارب میں دی گئ تھی اب اس سے اب 460 ارب قومی خزانے میں آئینگے۔

اور یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئیگی جسکے شرائط میں ملک ریاض نے اپنی دیگر پوری جائیداد گروی رکھی ہیں رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں بحق سرکار ضبط ہوگی۔

پاکستان کا یہ واحد کیس ہے جس میں اتنی بڑی رقم پہلی بار ریکوری ہورہی ہے اسلئے سپریم کورٹ کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

تنقید کرنے والوں کو حقیقت کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے بس انہوں نے تنقید برائے تنقید کرنی ہوتی ہے تنقید ضرور کریں مگر تحقیق کے بعد کریں۔
اور یہ صرف کراچی پراجیکٹ کا ہے باقی سب پراجیکٹ جو سپریم کورٹ میں ہے انکا کیس ختم نہیں ہوا ہے وہ بھی چلے گا اور ان پراجیکٹس سے ریکوری ہوگی۔

نیب کا ریفرنس کراچی پراجیکٹ تک روک دیا ہے کیونکہ اس میں زیادہ زمہ داری حکومت سندہ کی ہے باقی جنتے کیسز ہے وہ اپنی روٹین کے مطابق چلینگے۔

مزید دریافت کریں۔