ہنزہ نیوز اردو

جوانان ہنزہ کا ایک اعظیم کارنامہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

بنی نوع انسان نے جب سے روح زمین پر قدم رکھا ہے تب سے لے کر آج تک اُس کی کوشش رہی ہے کہ اپنی طرز زندگی کو ہر ممکن پُر آسائش بنایا جائے تاکہ زندگی گزارنے میں حضرت انسان کو ہر ممکن سہولیات فراہم ہو سکے – انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ بنیادی چیزوں کا ہونا ضروری ہے اُن میں پانی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کی بقا ناممکن ہے – ہنزہ میں ابتداء سے انسانی آبادی کی کثرت اور اراضیات کی قلت کی شکایت رہی ہے اس لیے اہلیان ہنزہ نے سب سے پہلے زمینوں کے بارے میں قانون بنایا جس کے تحت ہنزہ کی زمین کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا- درجہ اول کی زمین کو “ہرکس زمین” جس کے معنی وہ زمین جسے صرف غلہ جات اگانے کے لیے مختص کیا گیا ہو- جس میں گندم جو مکئی وغیرہ کی کاشت کرتے تھے- درجہ دوم کی زمین کو “بسی کس” کہتے تھے جس میں پھل دار درخت لگائے جاتے تھے- درجہ سوئم کی زمین “سقہ کس” کہلاتی تھی جس میں گھاس اُگاتے تھے- ان تینوں ردجے کی زمینوں کو پانی کی فراہمی کا نظام بھی الگ الگ تھا جس کے تحت درجہ اول کی زمین کو ترجیح دی جاتی تھی اس کے بعد درجہ دوم اور سوئم کو پانی فراہم کی جاتی تھی – ہنزہ میں شروع سے ہی پانی کی شدید قلت رہی ہے پانی کے استعمال پر بعض اوقات بڑے جھگڑے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ہنزہ میں پانی کی قلت کا اندازہ بروشوسوین کے اس مقولہ سے لگایا جا سکتا ہے “گوے گوٹس کے فت نیہ چلے گلت” یعنی اپنے باپ کے جنازے کو بھی چھوڑ کر اپنی باری کا پانی سنبھال لے- دوسروں کی پانی چرانے والے کے گھر سے بیل گائے وغیرہ جو بھی دستیاب ہوتا تھا بطور تاوان اُٹھالیا جاتا تھا اور آج نقدی پر اکتفا کیا جاتا ہے- میر غضنفر علی خان کے زمانے تک ریاست ہنزہ کے دارالخلافہ بلتت کی زمینوں کی سیرابی کا واحد ذریعہ صرف نالہ “بلولو” تھا جس میں گلیشیر نہیں صرف برف ہوتی تھی مگر برف کے وجود کا انحصار بھی اہل ہنزہ کے تصور کے مطابق برف و باران کے لیے اہلیان ہنزہ کی دعا کے کی محتاج ہوتی تھی – نالہ “بلولو” سے صرف ایک کوہل تھا جس سے بلتت کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں بشرطیکہ وقت پر برف و باران کا سلسلہ جاری رہا تو بصورت دیگر زمینیں سوکھ جاتیں تھیں – بلتت کی بت حوا اپنے بچوں اود اہل خانہ کو صاف پانی لانے کے لیے بصد مشقت ہرچی نالے تک جاتی تھیں جو کہ کافی فاصلے پر واقع ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہلیان ینزہ نے وزیر اسد اللہ بیگ کی سربراہی میں اس حل طلب مسئلے پر توجہ دی – بلتت کی زمینوں کی مناسب سیرابی اور کم از کم پینے کے لئے تازہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے نالہ اُولتر سے ایک کوہل نکالی جائے – جب وزیر نے منصوبہ میر غضنفر علی خان کی خدمت میں پیش کیا تو میر نے کہا کہ ہمارے پاس اسباب کی نایابی ہے کس طرح پہاڑ اور مٹی کے بڑے بڑے تودوں کو کھودا جاسکتا ہے- اس میں رعایا کی جانوں کا ضیاع ہوگا اور گنش التت اور نوآبادیات کے عوام بھی مخالف ہوں گے تاہم وزیر نے بصد مشکل میر کو راضی کیا – جب نہر بربر کاکام شروع کیا گیا تو گنش التت اور نوآبادیات کے عوام نے مخالفت کی کہ ہمارے حصے کا پانی چرایا جائے گا – اس پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ نہر بربر میں پانی اس وقت چھوڑا جائے گا جب خوبانی پکنے کے موسم میں نالہ بھر کر پانی دریا برد ہوجاتا ہے – نالہ بربر تو بلتت کی ارضیات کی سیرابی کے لیے نکالی جانی تھی اور اس کی مخالفت بلتت کے لوگ بھی کر رہے تھے – صرف قبیلہ “خروکذ” کے جوان اس ہل کو تعمیر پر راضی اور حامی تھے- جن کی زمینیں نالہ “بولولو” سے بہت دور تھیں – جہاں تک پانی کی فراہمی جوئے شیر لانے کے مترادف تھی – اکثر اوقات ان کی فصلیں سوکھ جاتی تھیں اور پھل دار درخت کے پتے تک گر جاتے تھے – لہذا دوسرے قبائل کی مخالفت کے باوجود قبیلہ “خروکذ” نے وزیر اسد اللہ بیگ کے ساتھ مکمل طور پر ہم خیال ہو کر تین سال تک بڑی جانفشانی، ہمت اور محنت کے ساتھ کام کیا اور نہر بربر پر کام کرتے ہوئے قبیلہ “خروکذ” کے گیارہ جوان ایک بڑے پتھر کے سرکنے سے ایک ہی جگہ جام شہادت نوش کر گئے گویا اس قبیلے کی طرف سے اس کار خیر کے لئے ایک عظیم قربانی تھی- اس واقعے کے بعد تعمیر بربر کی مخالفت میں اور تیزی آگئی مگر وزیر اسد اللہ بیگ اور جوانان قبیلہ “خروکذ” نے ہمت نہ ہاری مارخور کی سینگوں اور لکڑی کے جبل اور بیلچوں سے سینکڑوں فٹ گہری خندق کھود کر پانی کو قلعہ بلتت کے دروازے تک پہنچایا گیا – سلام ہو ان اعلی ہمت اسلاف کے عزم و حوصلے کو جہنوں نے فرہاد وقت بن کر ہمت سے نہر بر بر نہیں کوہ بے ستون کھودا اور جوئے شیر لانے میں کامیاب ہوگئے – میں جب میں نہر بربر کو دیکھتا ہوں تو “ٹک ٹک دیدام دم نہ گشیدم” کے مصداق دیکھتا ہی رہتا ہوں اللہ پاک میرے بزرگوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں جن کی انتھک محنت کی بدولت میرا مادر وطن جنت کا نمونہ بن چکا ہے حوالہ جات ریاست ہنزہ تاریخ و ثقافت کے آئینے میں

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ