ہنزہ نیوز اردو

صبح کا بھولا شام کو گھر آیا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہا جاتا۔لیکن ہمارا بھولا 1974 میں ہماری ملکیت کے کاغذات اپنے ہاتھ میں لئے ایسا بھولا کہ ہمیں بھی یاد نہ رہا کہ ہم بھی کبھی ایک ریاست کے مالک تھے اور اس ریاست کے حق ملکیتی کے مطابق ہم بلا شرکت غیرےاپنی جائیداد کے مالک تھے پر ہمارا اس بھولے کو یاد ہی نہیں پڑ رہا تھا کہ یہ حق ملکیت کے دستاویزات کہاں رکھ کے بھول بیٹھا ہے۔جن بزرگوں کو تھوڑا بہت ان قیمیتی انتقالات کا معلوم تھا انہوں نے یاد دلانے کی بڑی کوشش بھی کی لیکن ہمارا یہ بھولا بادشاہ بس ایک جملہ دھراتا تھا حق ملکیت حق ملکیت حق ملکیت۔۔بزرگ فرما رہے تھے جی جی حق ملکیت کی بات کر رہے ہیں اس حق ملکیت کی جسے مہارجہ نے 1927 میں دے دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسے یاد نہیں آرہا تھا۔ جس کے باعث ہماری سونے جیسی جائیداد ان چوالیس سالوں میں بنجر اور ویران ہوگئی اور بھولے کی طرح ہم بھولے بادشاہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب اس جائیداد سے کیا لینا دینا یہ تو بنجر اور ویران ہوگئی ہے ہمارے بھولے پن سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اس پر خانہ بدوش جوہریوں کا بسیرا ہوا۔ اور خانہ بدوش جوہریوں نے اسی جائیداد سے فائدہ اٹھایا خیر چھوڑیں ان باتوں کو بات لمبی ہو جائیگی بس یہ سارا ہماری ریاست کے دوسرے بھائیوں کا ہے انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے ہماری حق ملکیت پر انہوں نے ہی ڈاکہ دالا بھولے کو 1974 میں انہون نے ہی کہا تھا کہ کاغذات چھپا کے بھول جائو۔پاکستان سے مل کر ان کو حقوق سے محروم رکھو ہاں ہاں پاکستان ان ہی لوگوں کی مُٹھی میں ہے پاکستان ان کی مٹھی سے نہیں نکلتا اگر نکل گیا تو کشمیر آزاد ہو جائیگا۔۔یہ کشمیری بڑے ہی جابر اور سفاک ہیں نہ خود آزاد ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمیں حقوق دلواتے ہیں ۔خود ایس ایس آر کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ہمیں اس فائدے سے دور رکھا ان اکہتر سالوں میں پاکستان پر بھی ان کی حکومت ہمارے اوپر بھی یہی حکمران تھے۔۔ارے یہ میں نے کیا لکھ دیا کشمیریوں کی حکمرانی اب مجھے اشفاق احمد کا قول تو درج کرنا پڑیگا سمجھانے کے لئے نہیں تو بات کا مطلب آپ کی سمجھ میں کیا میری خود سمجھ سے باہر ہوگا۔۔کسی نے اشفاق احمد سے پوچھا کہ لوگ مولویوں کو کیوں کوستے ہیں یا ان کو بُرا بھلا کیوں کہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ جو لوگ مولویوں کے خلاف بولتے ہیں اصل میں وہ اسلام کو بُرا بھلا کہنا چاہتے ہیں لیکن ایسا ان کے لئے ممکن نہین ہوتا اس لئے مولویوں کو ایک دو سنا کر وہ اصل میں اسلام کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہین۔کچھ ایسا ہی معاملہ گلگت بلتستان والوں کا ہے پاکستان کو وہ گالی نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس کے خلاف بول سکتے ہین بس وہ کشمیریوں کوایک دو سنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔۔۔۔ اب ہمیں یقین ہے کہ بات سمجھ آگئی ہوگی اور اب ہمارا بھولا ضرور یاد کریگا یا اسے یاد آئیگا کہ اس نے وہ حق ملکیت کے کاغذات کس کشمیری کو دئے تھے اس کو ڈھونڈ نکالے گا اور ہم بھولے بادشاہ لوگ کشمیریوں سے یہ اپیل کر سکیں خدا را اب ہمارے راہوں مین روڑے نہ اٹکانا اب کے بار ہمارا ساتھ دینا اگرچہ بڑی دیر کر دی ہے ہم نے ان کاغذوں کی کھوج میں نہ جانے کتنی گرد پڑی ہوگی ان میں اور اس گرد کو صاف کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا اور یہ بھی یقین نہیں اتا کہ گرد کو صاف کرنے کے بعد بھی جس کے ہاتھ میں یہ حق ملکیت ہے وہ ہمیں ملتی بھی ہے یا کہ نہیں

 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ